قلعہ شیخوپورہ

قلعہ شیخوپورہ

قلعہ شیخوپورہ
لاہور سے شمال مغرب میں تقریباً 40 کلومیٹر دور ایک شہر ہے جس کی بنیاد مغل بادشاہ جہانگیر نے 1607 میں رکھی۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سولہواں بڑا شہر اور ضلع ہے جس کی حدود ضلع لاہور، حافظ آباد اورقصور سے ملتی ہیں۔








اس علاقہ کو ابتدا میں مقامی جٹ قبیلے کے نام سے ورک گڑھ یا قلعہ ورک کہا جاتا تھا۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے جب اس شہر کی باقاعدہ بنیاد رکھی اور یہاں شاہی قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تب اس شہر کا نام جہانگیر کے نام پر جہانگیر پورہ رکھا گیا جس کا ذکر جہانگیر کی تزک جہانگیری میں ملتا ہے۔ جہانگیر کی ماں اسے پیار سے شیخو کے نام سے بلاتی تھی اور اسی عرف سے شہر کا موجودہ نام شیخوپورہ رائج ہوا۔ جہانگیر نے اس شہر کے پاس اپنے پسندیدہ ہرن منسی راج کی یاد میں ہرن مینار بھی تعمیر کروایا۔ جنگل کا یہ علاقہ شاہی خاندان کی شکار گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔








مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد شیخوپورہ بھٹی قبیلہ کے قبضے میں آ گیا۔ اردگرد کے ڈاکووں اور سکھ قبائل نے اس شہر کی حدود میں تجاوزات اور حملے شروع کیے تب بھٹی قبیلے نے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جو کارگر ثابت نہ ہو سکی۔1797 میں درانی بادشاہ شاہ زمان نے لاہور پر قبضہ کرنے کی مہم کے دوران شہر اور قلعے کو مختصر طور پر اپنے قبضے میں لے لیا جس کے بعد شہر کا قلعہ سکھ ڈاکو اندر سنگھ نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اقتدار میں بھٹی قبیلہ کو اس علاقہ سے نکالنے اور پنڈی بھٹیاں اور جلال پور بھٹیاں کے علاقے تک محدود کر دینے کے نتیجے میں یہ شہرآخر کار 1808 میں سکھ مثل راج کا حصہ بن گیا اور 1847 تک سکھ سلطنت ہی کا حصہ رہا۔








برطانیہ نے جب اس علاقے کو اپنے قبضے میں لیا تب 10 ماہ کے لیے سکھ سلطنت کی آخری ملکہ جند کور کو شیخوپورہ کے شاہی قلعہ میں قید رکھا گیا اور بالآخر اسے جلا وطن کر دیا گیا۔








برطانوی کالونیوں کے قیام کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے بھٹی قبیلہ کی وہ زمینیں جن پر سکھوں نے قبضہ کیا تھا، ان کو واپس سپرد کر دی گئیں۔ 1919 میں شیخوپورہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔









تقسیم ہند کے وقت اس ضلع میں سکھوں کی آبادی 19 فیصد تھی۔ سکھوں کا خیال تھا کی شیخوپورہ سے ننکانہ صاحب (سکھ مذہب کے بانی گورو نانک کے جنم کی جگہ) تک کا علاقہ بھارت میں شامل کر دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا اور اسکے نتیجے میں سکھ اور مسلمانوں نے درمیان ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 16 اگست 1947 سے 31 اگست 1947 کے درمیان یہاں 10000 کے قریب لوگوں کی موت واقع ہوئی۔ شہر کے قریب سچا سودا کے مقام پر ایک لاکھ سکھ پناہ گزینوں کا کیمپ قائم کیا گیا۔








نوٹ اب یہ قلعہ بے بسی کی تصویر بنا انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے جلد محفوظ کیا جانا لازمی ہے تاکہ یہ اپنی کھوٸی ہوٸی شادابی واپس لا سکے

Post a Comment

0 Comments