ڈیرہ غازی خان Dera Ghazi Khan

ڈیرہ غازی خان Dera Ghazi Khan

ڈیرہ غازی خان
ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔










ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی پندرہویں صدی میں جب 1474 صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا اور اس شہر کی بنیاد رکھی










ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان شہر کی بنیاد رکھی۔










جو ایک مضبوط ریاست کا حصہ تھا شہر کی آبادی بھی بڑھتی رہی وقت رفتہ کے ساتھ ساتھ اس شہر نے بھی بہت سے ادوار حکومت دیکھے جنگجو یہاں آۓ سپہ سالار لشکروں کے ساتھ گزرے لیکن یہ شہر قاٸم رہا بل آخر تقدیر کے ہاتھوں میں آگیا اور 1887ء میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا۔ اور مکمل تباہ ہو گیا اور دریا کا پانی اسے اپنے ساتھ لے گیا اس وقت یہ شہر موجودہ شہر سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔










اس موجود شہر کی بنیاد 1910 میں رکھی گٸ اور یہاں پھر سے ترقی و سہولیات کا آغاز ہوا۔بلوچ قبیلوں کو انگریز حکمرانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بااختیار کیا، انہوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دیے۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے۔ انتظامیہ کے لیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی ہے جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ 1925ء میں معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد بھی ریاست کا حصہ رہا









پھر ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ شہر کی تمام سڑکوں، گلیوں کو مختلف بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت کے منصوبے کے مطابق ہر گھر کے لیے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ تاہم وراثتی طور پر مکانات کی منتقلی سے گھروں کا حجم بہت فرق ہو گیا۔ 1982ء میں ﮈیرہ غازی خان ڈویژن بنا۔ ڈیرہ غازی خان کی تحصیلیں ڈیرہ غازی خان۔ ٹرائیبل ایریا(تحصیل کوہ سلیمان) اور کوٹ چُھٹہ شامل ہیں۔ نوٹ ۔تونسہ شریف ضلع بننے سے پہلے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تھا جسے حال ہی میں ضلع بنا دیا گیا










مشہور پہاڑی سلسہ کوہ سلیمان یہیں واقع ہے۔ پرفضا مقام فورٹ منرو بھی یہیں ہے۔ اس کا مرکزی شہر ڈیرہ غازی خان ہے۔۔ 1998ء کی مردم شماری میں آبادی کا تخمینہ 16,43,118 تھا۔ جو اب 25 لاکھ سے اوپر ہے ضلع ڈیرہ غازی خان میں عمومی طور پر سراٸیکی پنجابی،اردو اور بلوچی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 11922 مربع کلومیٹر ہے۔ بہت سے آثار قدیمہ قلعہ ۔مسجد۔عمارتیں۔مندر۔ اس ضلع کے دامن میں موجود ہیں جن کا زکر کچھ ہو چکا کچھ ہونا باقی ہے









محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، یہ خطہ پہاڑی، دامانی، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے۔










علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے
ڈیرہ کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث قابل کاشت کم ہے جتنا بھی رقبہ قابل کاشت ہے یہاں کاشت کاری ہوتی ہے علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، اندرون ملک سفر کے ليے ریل، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ڈیرہ غازی خان پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ہر صوبے کے لوگ رہتے ہیں۔









مشہور روحانی ہستی سید احمد سلطان سخی سرورؒ کا دربار بھی اسی ضلع کی رونق ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں زاٸرین آتے ہیں اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments