" 1000 ہزار سال پرانا سسی دا کالرہ "

" 1000 ہزار سال پرانا سسی دا کالرہ "

 " 1000 ہزار سال پرانا سسی دا کالرہ "

ضلع چکوال کے شمال مغربی کونے میں مکھڈ اور کالاباغ کے درمیان دریائے سندھ اور سواں کے سنگھم پر موضع شاہ محمد والی کے عین جنوب میں سطح سمندر سے١١٠٠ فٹ کی بلندی پر ایک پہاڑ کی چوٹی پر جو دریائے سواں سے ملحقہ نالہ لیٹی کے کنارے واقع ہے۔
تقریباً ٣ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قدیم مندر ہے جوکالرہ کے نام سے جا ناجاتا ہے۔ یہ مندر عدم مرمت و حفاظت کے سبب گر رہا ہے ۔ضلع جہلم گزییٹر 1883 کے مطابق اس مندر کی دیواروں کے قریب وینکا دیوا کا ایک سکہ دریافت ہوا تھا. جنرل کننگھم کے مطابق اس حکمران کا عہد حکومت آٹھویں صدی عیسوی کا تھا۔ اس کی تاریخ تعمیر کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ۔جنرل کننگھم کے مطابق اس کا اسلوب بھی کشمیری ہے اور اس کا سن تعمیر 800 سے لیکر950ء تک ہو سکتا ہے۔
چکوال لیاقت خان نیازی نے اپنی کتاب(چکوال تاریخ و ثقافت) میں کالرہ کو( سسی دا کالر یا کالرہ) کہا ہے۔لیکن مقامی روایات اور لوک داستانوں میں کہیں بھی اس کا تعلق سسی پنوں سے ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی کالرہ اور موضع کلری میں کوئی نسبت ہے۔ڈاکٹر سٹین کی نظر میں اس مندر کا طرز تعمیر امب کے مندروں سے ملتاجلتا ہے اور غالباً یہ مندر ہندو دیوتا شیو یا وشنو کے لیئے وقف کیا گیا تھا۔ جنرل کننگھم کوہستان نمک کے جن مندروں کی طرز تعمیر کشمیری بتاتا ہے . چکوال لیاقت خان نیازی اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جدید ماہرین تعمیرات اسے ہندو شاہیہ کا نا م دیتے ہیں جوکہ زیادہ مستند دکھائی دیتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments