قلعہ روات شاہی قلعہ

قلعہ روات شاہی قلعہ

شاہی قلعہ
قلعہ روات
روالپنڈی سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر روات میں موجود یہ شاندار قلعہ روات ہے
روات عربی زبان کے لفظ ربات کی بگڑی ہوئی شکل ہے ربات کے لغوی معنی سرائے کے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ قلعہ درحقیقت ایک قدیم کاروان سرائے تھا جو جرنیلی روڈ کے ساتھ مسافروں کی سہولت یا سرکاری اہلکاروں کے ٹھہرنے کے لیے بنائی گئی تھی کہا جاتا ہے محمود غزنوی کے بیٹے کے بیٹے مسعود نے 1039 میں بنوایا جسے اسی کی فوج کے باغی سپاہیوں نے اس قلعہ میں قید کیا اور پھر ٹیکسلا کے قریب لے جا کر گڑی کے قلعہ میں قتل کر دی اس کا فن تعمیر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ قلعہ نماسرائے پندرہویں صدی کے اوائل میں سلاطین دہلی کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا یہ قلعہ بعد میں گکھڑ قبیلے کے سردار سارنگ خان کے قبضے میں آیا جو اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں قتل ہوا اور اسی قلعے میں دفن کیا گیا۔









بعض روایتوں میں یہ ہے کہ قلعہ سولہویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی قلعہ میں سلطان سارنگ خان اور شیر شاہ سوری کے درمیان جنگ ہوٸی جو 1540ء میں اس مقام پر لڑی گئی۔ مربع نما قلعہ جس کے دو بڑے دروازے ہیں یہاں مسجد بھی موجود ہے مسجد کے تین بڑے کمرے گنبد کی شکل میں نظر آتے ہیں اور یہ تقریباً بہتر حالت میں ہے۔ ایک گنبد کے ساتھ ایک چوکور عمارت ہے دیواروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کمرے ہیں۔ اس کی فصیل کے ساتھ ساتھ بہت سے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جو دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں









قلعہ کے مرکز میں کئی قبریں ہیں۔ ان میں سے ایک سلطان سارنگ خان کی ہے۔ اس کے سولہ بیٹوں کی قبریں بھی ہیں جو 1540 میں یہاں جنگ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ہمایوں کے دور کے دوران، سلطان سارنگ خان نے زیادہ شہرت حاصل کی اس نے شیر شاہ سوری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا ان کے اس انکار سے شیر شاہ سوری نے اس پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے سولہ بیٹے مارے گئے تھے۔









قیام پاکستان کے بعد قلعہ کو محکمہ اوقاف کی نگرانی میں دے دیا گیا اور اس کا نام شاہی قلعہ رکھ دیا گیا اس میں واقع مسجد جو آج بھی آباد ہے اور قدیم دور کی یاد دلاتی ہے قلعے کے ارد گرد مضبوط فصیل ہے جو اسے بیرونی دشمنوں کے سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھی مگر اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے علاوہ اس کی دیواروں کو اہل روات نے بھی نقصان پہنچایا ہے انہوں نے گھروں کی تعمیر کے لیے اس کی دیواروں کو گرانا شروع کر دیا تھا









اب حکومت نے اس کے ارد گرد دیواروں کے ساتھ تعمیرات پر پابندی لگا دی ہے اور قلعے کے دونوں اطراف میں خوبصورت لان بنا دیے گئے ہیں اب کچھ محفوظ ہو گیا ہے ایک اچھی سیرگاہ بھی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے اسے مزید محفوظ اور مظبوط کیا جاۓ اور اس کی بہتر تاریخ تعمیر واضع کی جاۓ اس کو کس نے کب اور کیوں بنوایا تاکہ اچھی معلومات مل سکیں بحر حال اپنی فن تعمیر میں یہ قلعہ روہتاس قلعہ سے بھی مماثلت رکھتا ہے اور یہ شیر شاہ سوری کی بناٸی جرنیلی سڑک پہ موجود ہے مکمل اور بہتر جانکاری دینا متعلقہ ادارے کا فرض ہے

اور ایک بہترین تاریخی سیرگاہ بنانا اور محفوظ رکھنا ادارے کے ساتھ اہل علاقہ کا بھی فرض ہے 

Post a Comment

0 Comments