کشمیر سمستہ غار

کشمیر سمستہ غار

کشمیر سمستہ غار
قدیمی غار مردان
کشمیر سمست مردان کے شمال میں سکھرا پہاڑ کاٹلنگ باٸیزی میں سطح سمندر سے 1100 سو فٹ کی بلندی پر واقعہ ہے ۔ ملاکنڈ کے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ آر ایچ ڈین پہلے آرکیالوجسٹ تھے جنھوں نے اس غار کا سروے کیا اور اس کا ایک نقشہ بھی بنایا ۔







کسشمیر سمستہ کے تاریخی غار سے دریافت شدہ سکوں کے تجزئے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس خطے کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ مسلمانوں کے روابط محمود غزنوی کے حملوں سے بھی سیکڑوں سال پہلے سے ہوتے رہے ہیں۔ 1888 میں ڈین فرنگی نے اس غار سے پہت سے قیمتی نوادرات جس میں لکڑی سے بنے مختلف اوزار تھے اپنے ساتھ کلکتہ اور پھر وہاں سے برٹش میوزیم لے گیا جہاں وہ آج بھی پڑے ہوئے ہیں ۔۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گندھارا ،ہن اور ہندو شاہی ادوارکے ملنے والے جتنے بھی نوادارات ہیں وہ سب پتھر سے تراشے ہوئے ہیں لیکن کشمیر سمست سے ملنے والے نویں اور دسویں صدی کے یہ نوادارت لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ۔ جو افتاد زمانہ سے ہزار سال سے بھی ذیادہ عرصے تک محفوظ رہے ہیں ۔







ڈاکٹر محمد نسیم خان صاحب نے اس غار میں کھدائی کے دوران بہت سے سکے دیافت کئے جو شائد آج ان کی ذاتی کلیکشن کا حصہ ہیں ان سکوں میں سب سے اہم سکے جو دریافت ہوئے وہ تھے جن ہر عربی میں کلمہ اور کچھ نام کندہ ہیں ۔ تانبے سے بنے یہ سکے اگرچہ چند ہیں لیکن ان کی ہن اور ہندوشاہیہ سکوں کے ساتھ موجودگی ایک نئے بحث کو جنم دے رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تینوں ادوار کے سکوں کا باہم موازنہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچھے ہیں کہ اسلامی سکے ہن دور کے بعد اور ہندو شاہی دور سے پہلے کے ہیں گویا کہ یہ سکے اموی دور کے ہیں جو ساتویں صدی عیسوی کے اسلامی عہد زریں ہیں جب بنو امیہ کے لشکر سندھ ملتان اور بنوں پر حملے کر رہے تھے ۔








ایک سکہ جس پر کلمہ بھی درج ہے اس پر ایک نام عمر لکھا ہوا صاف دیکھا جا سکتا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عین ممکن ہو یہ سکہ عمر بن عبدالعزید رح کے دور میں جاری کئے گئے ہوں ۔ سکے کے دوسرے طرف ایک گھڑ سوار جس کے گھوڑے کی دم اوپر کی طرف موڑی گئی ہے ۔۔








یہاں پرالبلا ذوری کی کتاب فتوح البلدان سے یہ تاریخی واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ مسلم لشکر کا دشمن کے کچھ ایسے گھڑ سواروں سے سامنا ہوا جس کے گھوڑؤں کے دم اوپر کی طرف رول کئے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے گھوڑؤں کی رفتار بہت تیز تھی اس پر مسلم لشکر کے امیر نے بھی اپنے گھڑ سواروں کو ایسا کرنے کا حکم دیا ۔۔ ڈاکٹر صاحب کے دریہافت شدہ سکے کے ایک طرف گھر سوار کے گھوڑے کی دم کا مڑا ہونا اس واقعے سے بہت مماثلت رکھتا ہے عین ممکن ہے کہ کابل کے جنوب میں واقعہ یہ اوطان قبضہ کرنے کے بعد یہ سکے یہاں جاری کئے گئے ہوں سکے پر درج عمر خلیفہ اول کا نام نہیں ہو سکتا یہ عمر ثانی عمر بن عبدالعزیز ہی ہو سکتے ہیں ۔ اس دریافت سے گویا یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ مسلمان اس علاقے میں غزنویوں سے بھی بہت پہلے یعنی ساتویں صدی عیسوی میں مبلغ ،تاجر یا حملہ آوروں کی صورت میں وارد ہوئے ۔ 

Post a Comment

0 Comments