تخت باٸی

تخت باٸی

تخت باٸی
مردان میں واقع بدھ مت کی تہزیب اپنے آثار کے ساتھ نا صرف پیارے ملک پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتی ہے اس تہزیب کو مٹے تو صدیاں بیت گٸیں لیکن اپنی جسامت اور رہن سہن اور مقصد کو یاد کراتی آج بھی آنے آثار کے ساتھ کھڑی ہے






تاریخی حوالوں کے مطابق اس تہزیب کا دورانیہ پہلی سے سے پانچویں صدی تک مہیت ہے اور یہ آثار کوٸی 2 ہزار سال پرانے ہیں جہاں بدھ مت کے رہنما اشوکا نے بھی قیام کیا بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے یہ 700 سال تک اہمیت کا حامل رہی
پشاور شہر سے 80 کلومیٹر اور مردان شہر سے 15 کلومیٹر پہ واقع یہ حیرت انگیز کھنڈرات پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں
2 ہزار سال پرانی بدھ مت تہذیب کا امین..






تخت بائی نام کی اصلیت تو غیر یقینی ہے کہ اس کا پرانا نام یہ ہی تھا مقامی لوگوں اور تاریخی حوالوں سے اسی نام کا پتہ چلتا ہے کہ اس جگہ کا نام پہاڑی پر دو کنوؤں، یا آس پاس کے چشموں سے پڑا ہے۔ فارسی میں تخت کا مطلب 'اوپر' یا 'تخت' ہے جب کہ بائی کا مطلب 'بہار' یا 'پانی' ہے۔ جب ملایا جائے تو اس کے معنی ہیں 'اوپر سے بہار' یا 'اونچا چشمہ'، اور پہاڑوں کی چوٹی پر دو چشمے تھے۔ ایک اور معنی تجویز کیا گیا ہے 'اصل کا تخت'۔ اگر آپ اس جگہ کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو مردان انٹرچینج پر مردان کی جانب چلے جائیں۔






مردان سے کوئی 20 سے 25 منٹ کوٸی 15 کلومیٹر کی مسافت پر سوات کی جانب تخت باہی کا علاقہ ہے۔ شہر سے چند کلومیٹر دور دائیں جانب آپ کو آثار قدیمہ کی جانب جانے والے راستے کا بورڈ بھی نظر آئے گا۔





اس موڑ پر ہی آپ کو اک بے یقینی کیفیت گھیر لے گی آپ کو اپنے دنیا سے اس دنیا تک لے جاۓ گی جو آج سے صدیوں پہلے موجود تھی آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ شاید اس تاریخی دور میں پہنچ گئے ہیں جہاں زرد رنگ کے لمبے لباس پہنے راہب ہر جگہ موجود ہیں۔






کچھ فاصلہ آپ کو پیدل چلنا پڑے گا اور یہاں سیڑھیوں کی مدد سے آپ شہر سے تقریباً 150 میٹر یعنی پانچ سو فٹ کے نزدیک بلند مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں بدھ مت تہذیب کے وہ آثار دیکھ پائیں گے جس کے لیے چین، جاپان، تھائی لینڈ، کوریا اوردیگر ممالک میں رہنے والے بدھ مت کو ماننے والے لوگ ترستے ہیں۔یہ کھنڈرات برطانوی دور میں 1836 میں دریافت ہوئے تھے اور 1852 میں کھدائی شروع کی گئی تھی۔ یو نیسکو نے 1980 میں ان آثار قدیمہ کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا تھا۔





ان کھنڈرات میں راہبوں کے مسکن اور درس گاہوں سے لگتا ہے کہ یہاں علم کے فروغ کے لیے بڑا کام ہوتا تھا۔ان کھنڈرات میں وہ آثار آج بھی موجود ہیں جہاں سے بدھ مت نا صرف اپنے دھرم کا پرچار کرتے بلکہ دیگر علوم اور فن دنیا سکھاتے






یہاں راہبوں کے اسمبلی ہال جہاں عبادت کی جاتی تھی اس کے علاوہ یہاں طالب علموں کے لیے درس کی جگہیں موجود ہیں۔یہ ایک طرح کا کمپلیکس تھا اور یہاں مسافر اور وہ لوگ جو اپنی منتیں مانتے تھے، یہاں آ کر رکتے اور وہ اپنے طور پر یہاں ایک سٹوپا بنا کر جاتے تھے





بدھ مت کی یہ تہزیب صدیاں گزرنے کے بعد بھی اپنے آثار بچاۓ بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے






پیج کی کوشش ہے کے پاکستان کہ وہ آثار قدیمہ یا سیاحتی مقام یا شہر گاٶں صنعتیں کھانے یا دیگر معلومات جو ہم سے اوجھل ہیں یا جہاں ہم نہیں گۓ یا دنیا میں جسکی معلومات کم ہیں وہ لوگوں تک پہنچاٸی جاٸیں اور ہمارے جنت نظیر ملک میں چھپی سیاحوں کی جنت کو سامنے لایا جاسکے جس سے تاریخ اور ثقافت کے بارے معلومات مل سکیں اور جو ہمارے علاقے اور ملک کے لیے مفید ہو۔





ضروری التماس ہے کوٸی ہزاروں کے قریب لوگ جو اس invites پہ اس پیج کودیکھ پڑھ اور پسند کر رہے ہیں وہ پیج کو لاٸک فالو بھی کر لیں یہ آپ کی طرف سے انعام اور محبت ہوگی۔

محبت والو محبت بڑی نعمت ہے 

Post a Comment

0 Comments