الیاسی مسجد

الیاسی مسجد

الیاسی مسجد
نواں شہر ایبٹ آباد
میرا ہوم ٹاٶن ایبٹ آباد یوں تو یہ جنت نظیر وادی بہت سی شناخت رکھتی ہے تاریخی بھی اور سیاحتی بھی یہاں کی سیر گاہیں نتھیا گلی۔ایوبیہ۔سنمدر کٹھہ جھیل۔مشکپوری۔میرا جانی۔ٹھنڈیانی۔نواں شہر اور ایوبیہ چیٸر لیفٹ۔راجہ رسالو غاریں ہوں سرباہن کی حویلی ہو ۔





ہزارہ آبشار۔ٹوٸین آبشار۔امبریلا آبشار۔نملی آبشار۔ہرنو۔ہوں یا آج کا کی زکر کردہ تاریخی الیاسی مسجد۔جو میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پہ پوری شان و شوکت سے کھڑی ہے ایبٹ آباد آنے والے سیاح اس کا حسن بناوٹ اور اس کے نیچے موجود چشمہ دیکھے بنا نہیں رہ سکتے اور پھر اس جگہ کے پکوڑے آپ کے لطف کو دوبالا کر دیتے ہیں






الیاسی مسجد انتہاٸی دلچسپ تاریخ رکھتی ہے 1932 سے پہلے یہاں موجود قدرتی پانی کا اک نا ختم ہونے والا چشمہ جو ہر وقت پوری آب وتاب سے بہتا ہے اور اتنا بڑا چشمہ شاید ہی کہیں ہو۔










آتے ہیں اس کی تاریخ کی طرف 1932 میں یہاں ہندو مسلم تنازع شدت اختیار کر گیا کیونکہ اس قصبہ نواں شہر کے باسی مسلمان یہاں مسجد بنانا چاہتے تھے اور ہندو مندر۔ لیکن جب تنازع میں شدت آٸی تو ڈپٹی کمشنر نے شرط رکھی کے جو یہاں صبح پہلے پہنچا یہ جگہ اسی کی ہوگی چنانچہ مسلمان ساری رات جاگتے رہے اور صبح سب سے پہلے یہاں پہنچے اور یہاں مسجد بنانا شروع کی ڈپٹی کمشنر نے بھی مسلمانوں کو اجازت دی اور یوں یہ مسجد اپنے وجود میں آٸی جسے انتہاٸی محبت اور مہارت سے تعمیر کیا گیا۔






اک اور روایت یہ بھی ہے کے یہاں ایک چھوٹی مسجد پہلے سے موجود تھی جو بہت پرانی تھی اسی کی جگہ 1935 میں یہ نٸ عمارت تعمیر کی گٸ تھی۔
جو بھی تھا فن تعمیر اور محبت دین اس خوبصورت عمارت سے ظاہر ہوتی ہے جسے اس وقت کے بڑی مہارت رکھنے والے کاریگروں جن کا تعلق ہزارہ دیگر kpk اور پنجاب سے تھا تعمیر کیا۔






آج سو سال ہونے کو ہے لیکن یہ مسجد آج بھی ایک بلکل نۓ شاہکار کی طرح نظر آتی ہے۔ گو کہ اب مسجد کمیٹی اور عماٸدین کی مشترکہ حکمت عملی سے اسے کی تعمیر نو ہونے کی ٹھان لی گٸ ہے اور نقشہ بھی تیار ہے۔






اس کے نیچے بہتہ پانی کا چشمہ نا صرف ہم مقامی لوگ اس پانی کو استعمال کرتے ہیں بلکہ بہت سے سیاح یہاں سے پانی ساتھ لے کر جاتے ہیں جسے امراض چشم۔شوگر۔اور جلدی مارض کے لیے موثر سمجھا جاتا ہے۔






یہاں کے پکوڑے اتنے ہی مشہور ہیں جتنی الیاسی مسجد لزت سے بھرپور پکوڑے شاید ہی کوٸی ایسا ہو جو یہاں آیا اور پکوڑے نا کھاۓ ہوں۔ 

Post a Comment

0 Comments