قلعہ ہرنڈ۔ Fort Harand

قلعہ ہرنڈ۔ Fort Harand

قلعہ ہرنڈ۔
ہری نند قلعہ
ضلع راجن پور میں واقع شہر راجن پور سے تقریبا 90 کلومیٹر دور مغرب کی جانب اور داجل سے 30 کلومیٹر قلعہ ہری نند موجود ہے جِسے اب قلعہ ہڑند کہا جاتا ہے
قلعہ کے جنوب مغرب میں ہزاروں سال پرانی مہر گڑھ کی تہذیب اور جنوب مشرق میں ہزاروں سال قدیم موہنجو داڑو کے کھنڈرات اپنی تاریخی شان و شوکت کے ساتھ مخدوش تعلقات کا راستہ دکھاتے ہیں۔
اس قلعہ کو قبل از مسیح راجہ ہرناکس اور اس کے بیٹے لوک بھگت نے تعمیر کروایا
سکندر نامہ کتاب جو کہ سکندر اعظم کی داستانیں سناتی ہے اس کتاب میں
مورخ کہتے ہیں کہ یہ وہی قلعہ ہے جہاں سکندر اعظم نے مقامی شہزادی رخسانہ سے شادی کی جو دارا یوش کی بیٹی تھی۔
یہ قلعہ چھوٹی مربع اینٹ سے تعمیر کیا قلعہ مربع شکل میں سولہ مسدس برجوں اور دو بڑے دروازوں پہ مشتعمل تھا اس قلعہ کے اندر افقی اور نشیبی راہداریاں بھی ہیں جو خفیہ سرنگوں سے ملحقہ غاروں کے اندر کُھلتی ہیں۔ارد گرد چٹیل میدان تھا مگر آج کل کھجوروں کے باغات نظر آتے ہیں
یہ قلعہ گورچانی بلوچ قباٸل کے زیر استعمال بھی رہا۔









سرحدی تعلق تو اس علاقے کا پنجاب سے ملتا ہے مگر جغرافیائی اور تاریخی تعلق سرزمین سندھ سے ہے۔
یہ وہ قلعہ ہے جس نے تاریخ کے بے انتہا ستم سہے کبھی یونانی، ایرانی اور عرب فاتحین نے اس قلعہ کو فتح کرنے کے خواب دیکھے اور کشت و خون میں نہلانے کے بعد فتح بھی کِیا۔
محمد بن قاسم کی یلغار کے سامنے یہ قلعہ اور اس کے مکین نہ ٹِک سکے گویا تیز ہوا کے سامنے تنکہ ہو۔اس قلعہ پر سکندر اعظم سے لیکر محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی تک سب حکمرانوں نے اپنا قبضہ رکها۔









احمد شاہ ابدالی نے 1747ء کو یہ دو علاقے ہڑند اور داجل خان اف قلات نصیر خان کو بطور تحفہ دئیے جس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے پھر اس پر حملہ کر کے اپنے قبضے میں لے لیا اور راجہ رنجیت سنگھ کی ہدایت پر اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع کروایا مگر مقامی قبیلہ گورچانی کی مزاحمت پر کچھ برس تعطل آیا مگر سکھا شاہی میں ہی اس کی مرمت مکمل ہوئی۔








لیکن وقت کے تھیڑے پھر سے پہ یلغار ہوۓ جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں پھر سے جنگ میں نہلایا گیا اور سِکھوں سے واپس چِھینا گیا جس سے قلعہ ایک مرتبہ پھر شکستہ حال بوڑھے کیطرح بے بسی اور لاچاری کی حالت میں چلا گیا اور افسردگی کی تصویر بن گیا اس کے بعد وقت نے اس بوڑھے قلعہ کی ہڈیوں سے رعنائی کا رس نچوڑ لیا۔ہر 20 سے 30 سال بعد ہوۓ حملوں نے اس قلعہ کو تحس نحس کر دیا اور یہ قلعہ اپنی تمام رعناٸیاں کھو گیا









آج یہ قلعہ وقت اور حکمرانوں کی بےحسی اور اپنی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے چولستان میں موجود باقی قلعوں کی طرح تاریخی ستم اور حکومتی بے حسی کی تصویر بنے دیکھا جا سکتا ہے ۔
ہم نے مانا کے تغافل نا کرو گے لیکن
خاک ہو جاٸیں گے تجھ کو خبر ہونے تک۔

کاش کے ہمارے محکمے خواب غفلت سے جاگیں قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو تحفہ سمجھیں ان کی حفاظت کریں 

Post a Comment

0 Comments