یہ خوبصورت منظر دیکھتے ہی وہ عش عش کر اٹھے۔ انہوں نے مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ کہ اگر اس جھیل کے پانی کو خارج کر دیا جائے ۔تو اس کی تہہ سے خوبصورت زرخیزوادی نمودار ہوگی۔ جس میں انسانی آبادی ممکن ہوگی۔ چنانچہ سوال پیدا ہوا کہ اس جھیل سے پانی کیسے خارج کیا جائے؟ جنوں کا سردار کاش جو اس میٹنگ میں موجود تھا۔ اس نے پیش کش کی کہ وہ یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔
لیکن اس نے یہ فرمائش کی کہ اگر وہ یہ خدمت سرانجام دے، تو شاہی دربار میں موجود میر پری اس کے عقد میں دے دی جائے۔ سلیمان علیہ السلام نے اس کی یہ فرمائش پوری کرنےکا وعدہ کیا۔ اور اسے حکم دیا۔ کہ وہ اس جھیل کو خالی کرے۔چنانچہ اس جن نے اپنے طلسماتی عمل سے بارہ کا پہاڑ کاٹ دیا۔ جس سے جھیل کا پانی خارج ہو گیا۔ سلیمان السلام نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوۓ میر پری اس کے عقد میں دے دی۔یوں کاش اور میر کی نسبت سے اس خطے کا نام کاشمیر رکھا گیا۔ جو صوتی تغیر سے کشمیر بن گیا۔
سری نگر کے عقب میں کوہ ہر مکھ کی چوٹی پر تخت سلیمان اس واقعہ سے منسوب ہے۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب سید علی ہمدانی کشمیر تشریف لائے،تو انہوں نے شاید اسی تناظر میں کشمیر کو باغ سلیمان کا نام دیا۔ درجہ بالا تشریحات اور روایات سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہ خطہ کشمير تاریخی تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے کتنی عظمت اور وسعت اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
0 Comments
asimjaan2244@gmail.com