خواجہ غلام فریدؒ

خواجہ غلام فریدؒ

خواجہ غلام فریدؒ






پنجاب دھرتی کے مشہور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی پیداٸش 25 ذیقعد 1261 بمطابق 25 نومبر 1845 کو منگل کے دن چاچڑاں شریف میں ہوٸی جو خان پور کے نواح میں سندھ کنارے ایک قصبہ ہے۔ آپ کے خاندان کا شجرہ نصب حضرت عمر فاروقؓ سے جا ملتا ہے۔







آپ کے والد کا نام خواجہ خدا بخش عرف محبوب الٰہی تھا۔ خواجہ فریدؒ نے قرآن کریم کی تعلیم میاں صدر الدین اور میاں محمد بخش سے جبکہ فارسی کی تعلیم میاں حافظ خواجہ جی اور میاں احمد یار خواجہ سے حاصل کی۔







خواجہ غلام فریدؒ کے بزرگوں کے ایک مرید ”مٹھن خان جتوٸی“ تھے جن کے نام پر مٹھن کوٹ کا قصبہ آباد ہوا۔
جب یہاں پنجاب کے سکھ حکمران مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تو آپکے والد اپنے خاندان سمیت کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف منتقل ہو گٸے جو ریاست بہاولپور کا حصہ تھا۔







کچھ برس ریاست کے شاہی محل میں گزارنے کے بعد آپ روہی نکل گٸے جہاں قریباً اٹھارہ برس کی چلہ کشی کی۔ آپ کی چلہ گاہ آج بھی چولستان میں موجود ہے۔
13 برس کی عمر میں بڑے بھاٸی فخر جہاں سے بیعت کی اور 27 برس کی عمر میں جب مرشد کا انتقال ہوا تو آپ سجادہ نشین بن گٸے۔





آپ انتہاٸی سخی تھے۔ جو کچھ آپ کے پاس آتا شام تک سب غربا و مساکین میں بانٹ دیتے تھے۔
آپ کی جاگیر سے سالانہ آمدنی 35 ہزار روپے تھی۔
آپ نے اپنے مرید خاص نواب آپ بہاولپور، نواب صادق محمد خان عباسی رابع کو نصیحت کی کہ :
زیر رہ زبر نہ تھی
متاں پیش پووی






یعنی نرمی اختیار کرو سختی نہیں ورنہ اللہ کی سختی جھیلو گے۔
آپ کا زیادہ کلام دیوان فرید کے نام سے سراٸیکی میں ہے ۔ اس کے علاوہ عربی ، فارسی، پوربی اور ہندی میں بھی شاعری کی ہے۔
آپ کے سراٸیکی دیوان میں قریباً 271 کافیاں ہیں۔






لطیف احساسات و جزبات اور اس میں وجدانی کیفیات کو اس طرح ملا دینا کہ شیر و شکر ہو جاٸیں خواجہ صاحب کی شاعری کا ہی ہمال ہے۔
آپ کا وصال 56 برس کی عمر میں چاچڑاں شریف، خانپور میں 24 جولاٸی 1901 بروز بدھ ہوا تھا۔ آپ کا ایک بیٹا خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور بیٹی تھی۔
آپ کا مزار مٹھن کوٹ میں ہے۔





سلسہ چشتیہ کے مطابق آپ کا نظریہ بھی ہمہ اوست تھا۔ یعنی آپ توحید وجودی کے قاٸل تھے۔ آپ کا تمام کلام اسی رنگ مں رنگا ہوا ہے۔
آپ کو ہر رنگ میں اللہ کے حسن کے جلوے نظر آتے تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کو علم موسیقی کا خاصا ادراک تھا۔ 39 راگ راگنیوں پر عبور رکھتے تھے ۔ اور ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔

ہر سال آپ کا عرس 5 6 7 ربیع الثانی کو منایا جاتا ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments