ہم جاہل تھے۔۔؟

ہم جاہل تھے۔۔؟

ہم جاہل تھے۔۔؟
کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔محض 30 سال پہلے ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانکے(ننہال) کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ دادکے(ددیہال) کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔




یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔




ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑی دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لے کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔




جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوۓ ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔




مکی (مکٸ) کٹاٸی سے کوٹائی ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔




اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ہے دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے اپنی اولاد ہو ۔۔ اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔




لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور ہے کچھ پڑھی لکھی باشعور نسل کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔




وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق لسانیت کا فرق سٹیٹس کا فرق شعور کا فرق ہے ۔ اب انسان کی پہچان انسان نہیں ہے برداری ہے قبیلہ ہے پھر قبیلوں میں بھی ٹبر ہے۔




اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا ہے کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں ہے اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ موجودہ دور کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔






اب گھر تو کچھ پکے اور بڑے ہیں لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گۓ ہیں ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا سینہ چیر کر غلہ اگتا تھا اب اسی پہ لڑنا مرنا شروع کر دیا ہے نفرتوں نے دلوں میں گھر کر لیا۔







لیکن کاش وہ وقت پھر سے لوٹ آۓ ہم پھر سے بارش میں بارش کے پانیوں میں کھیلں گیلی مٹی سے گھر بناٸیں کھلونے بناٸیں کوگو گھوڑے بناٸیں دوسروں کے گھروں کی کنڈی کھڑکا کے بھاگ جاٸیں کاش گلیوں سے صداٸیں آٸیں ۔ کڑیو بالو چیز ونڈی دی لٸ جاٶ۔





کاش ساٸیکل پہ آیا بندہ صدا دے پانڈے کلی کرالو۔ہم پھر سے لکن میٹی(آنکھ مچولی) کھیلیں۔شٹاپو ۔کوکلا شپاکی۔گچی پن۔ٹھیپو گول گرم۔لمبی گھوڑی۔باندر کلا۔گلی ڈنڈا کھیلیں۔دوسری طرف لڑکیاں گڈی گڈے کی شادی کریں پنج گیڈ کھیلیں درختوں پہ پینگیں ڈالیں عید شادی پہ مہندیاں لگاٸیں دو دو گُتیں کریں لمبے پراندے پہنیں۔





شادیوں پہ سب اکٹھے ہوکے روایتی ماہیے ٹپے گیت گاٸیں ڈھول بجے شہناٸیاں گونجیں پتاسے چھوارے بانٹیں مٹھاٸیاں بناٸی جاٸیں چلیبیاں بنیں۔شادی کا پیغام لے کر ناٸی آۓ اسے ماما چاچا بولا جاۓ اسے کھانا کھلانے کے بعد کپڑے اور پیسے دیے جاٸیں۔




کاش کھو سے پانی پینے بھرنے کا موقع ملے کاش آگ اور راکھ میں آلو اور چھلیاں بھونیں ۔امی ولاں والا پراٹھا بناٸیں گڑ والے چاول۔دودھ کی کھیر۔کڑی۔ساگ۔وڑیاں۔ بارش والے دن پکوان حلوہ میٹھیاں روٹیاں۔ پٹھی والے والی سے دانے بھنوانے جاٸیں تندور پہ روٹیاں لگی ہوں چٹی اچار اور لسی کے ساتھ کھاٸیں۔





کاش وہ وقت لوٹ آۓ جب ایک روپے کے 100 ٹیڈی بسکٹ ملیں بڑے بڑے رس لمبے پاپڑ لچھے کھاٸیں بیریوں سے توڑ کے بیر کھاٸیں مرغیوں کے کھڈے سے انڈے نکالیں۔نہروں نالوں چھپڑوں میں نہاٸیں شہد نکالنے جاٸیں پرندے پکڑیں پتنگ بازی کریں پانی میں کاغز کی کشتیاں چلاٸیں گلی سے ابلی چھلی گھر سے روٹی کے ٹکڑے دے کے لیں غبارے بیچنے والا آۓ تو خوشی کا ٹھکانہ نا ہو۔





ساٸیکل کی قینچی چلاتے چلاتے کچے رستے میں گر کر منہ مٹی سے بھر لیں۔
کسی سبزی کے کھانے سے انکار پہ امی سے چھتر پڑیں قمیض کے کف سے ناک صاف کرنے پہ چھتر پڑیں بندر نچانے والے کو آٹا پیسے دیں ٹرالی اور بیل گاڑیوں پہ بارتیں جاٸیں۔ ابا جی کے کندھے پہ بیٹھ کے میلا دیکھیں جھولے جھولیں۔ بارش کے بعد اونچی جگہ سے پسلن پہ پسلتے پھریں۔






ہمارا بچپن تو لوٹ نہیں سکتا کاش وہ وقت آج اور آنے والی نسلوں کے لیے لوٹ آۓ جب ہم پتھر کے دور میں تھے جس کو آج شعور والے جہالت کا دور کہتے ہیں جب سب خالص تھا کھانے ملاوٹ سے پاک تھے خلوص خالص تھا اپنا پن خالص تھا کوٸی رشتہ نا ہونے کے باوجود سب اپنے تھے اپنے رشتے تھے محبت خالص تھی اگر ہم ہمارے بڑے آج کے شعور اور سٹیٹس والوں کے لیے جاہل تھے تو ہمیں فخر ہے اس پہ ہم جاہل بھی تھے پاگل بھی تھے کیونکہ ہم محبت والے تھے۔
محبت والو محبت بڑی نعمت ہے

Post a Comment

0 Comments