بلوچستان کا تاج محل

بلوچستان کا تاج محل

 بلوچستان کا تاج محل

موتی گہرام کا مقبرہ
کوئٹہ سے 250 کلو میٹر اور گندھاوا سے 12 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ اس مقبرے تک کوئٹہ سے پانچ گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے۔250 کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد بائیں جانب ایک کچی سڑک کا راستہ مقبرے کی طرف لے جاتا ہے۔ دس منٹ کی مسافت کے بعد مقبرہ کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔




بلوچستان کا ضلع جھل مگسی 1739 تک کلہوڑا راج کا حصہ تھا، 1740 میں ایران کے نادر شاہ نے خان آف قلات میر عبداللہ خان کے خون کے عوض قلات سلطنت کے حوالے کیا۔




یہاں آج بھی کلہوڑا دور کی عمارتوں کے علاوہ مگسی قوم کے کئی سرداروں کے مقبرے موجود ہیں ، لیکن جس مقبرے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ محبت کی لازوال داستان ’’ موتی گوارام کا مقبرہ ‘‘ ہے جوکہ آگرہ ہندوستان میں مغلیہ بادشاہ شاہجہان کے بنائے گئے محبت کی لازوال مثال ’’ تاج محل ‘‘ کے طرز پر بنایا گیا۔ اسی وجہ سے اسے بلوچستان کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔




مقامی روایات کے مطابق سردار گوارام اور موتی، میاں بیوی تھے۔ مائی موتی ایک سرمایہ دار تھی اس کے پاس زیادہ مال و دولت تھی ، میاں بیوی کی آپس میں بہت زیادہ محبت تھی۔ سردار گوارام بھوٹانی کی دوسری شادی اپنے خاندان میں ہوئی تھی لیکن مائی موتی سے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس نے سردار گوارام بھوٹانی کو کہا کیوں نہ ہم اپنی زندگی میں اپنا مقبرہ بنوا لیں ، اگر میں آپ سے پہلے فوت ہوگئی تو آپ اس میں مجھے دفنانا اور اگر آپ پہلے فوت ہوگئے تو میں آپ کو یہاں دفناؤں گی۔




بعدازاں جھل مگسی کے علاقے ’’خان پور‘‘ کے خالی میدانی جنگل میں کام شروع ہوا۔ اس مقبرے کی تعمیر کے لیے دور دراز سے ماہر کاریگر اور مزدور بلائے گئے۔ یہاں اینٹوں کا ایک بھٹہ بھی لگایا گیا تاکہ مقبرے میں لگنے والی اینٹیں یہاں بنائی جائیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مائی موتی کے مال و زر کے لیے مقبرے کے اندر تہہ خانہ بنایا گیا جس میں مائی موتی اور گوارام نے اپنی زندگی کا سارا مال و متاع دفنایا۔ موتی اور گوارام بھوٹانی کی وفات کے بعد دونوں کو اس مقبرے میں دفنا دیا گیا۔




مقبرے کی تعمیر نہایت خوبصورت دیدہ زیب ہے جس کی مثال پورے صوبہ بلوچستان میں نہیں ملتی۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مقبرہ موجود ہے۔ خراب موسم اور زلزلوں نے موتی اور گوارام کے مقبرے کو کافی نقصان پہنچایا۔ دیکھ بھال اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منہدم ہونے کا اندیشہ ہے۔




مقبرہ ایک مٹی کے ٹیلے پر بنایا گیا ہے اوپر جانے کی سیڑھیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یہ مقبرہ ’’خان پور‘‘ میں واقع ہے۔ مقبرے کے داخلی دروازے، اوپرکا راستہ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ وقت کے ساتھ کچھ خود اورکچھ لوگوں نے بھی داخلی راستے کو توڑا۔ مقبرے میں نیلے رنگ کے خوبصورت ٹائلز لگائے گئے ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد کے مطابق مقبرے کے اندر جانے کی سیڑھیاں پہلے موجود تھیں جوکہ اب منہدم ہوچکی ہیں۔








مقبرے کے اندر موتی اور گوارام کی قبور ہیں۔ اس کے اندر کسی نے کھدائی کی ہے جو خزانے کی تلاش میں ہوں گے۔ اس کی محراب میں شگاف پڑ گے ہیں کسی وقت بھی منہدم ہو سکتے ہیں۔ اس کی لمبائی یعنی اونچائی تقریباً 100 فٹ کے قریب ہے۔ مقبرے کے اندر نہایت خوبصورت دیدہ زیب ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چبوترے نہایت خوبصورتی سے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔




مقبرے کے گنبد میں روشن دان بنے ہوئے ہیں ابھی تک مقبرہ اور مرقد موجود ہیں اگر خیال نہ رکھا گیا تو یہ ختم ہو سکتا ہے۔ دیوار کو لوگوں نے کھودا ہوا ہے باہر چبوتروں کے نیچے تین کمرے ہیں جن کو کھودا گیا ہے۔ بارش کا پانی اندر جانے کی وجہ سے کمرہ منہدم ہوگیا۔ یہ تینوں کمرے منہدم ہوگئے، کونے پر بنی ہوئی محراب بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مقبرے کی دائیں جانب ایک مسجد ہے دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی چھت گر چکی ہے





حکومت اور ضلعی ادروں سے التماس ہے اس کی طرف بھی نظر کریں اور اس پاک ورثہ کو محفوظ بناٸیں

Post a Comment

0 Comments