جنڈیالہ شیر خان

جنڈیالہ شیر خان

 جنڈیالہ شیر خان

شیخوپورہ ضلع کا ایک خوبصورت اور تاریخی قصبہ جو شہر شیخوپورہ سے 14 کلو میٹر پہ شمال میں واقع ہے
جی ہاں وہی جنڈیالہ پنجابی شیکسپیئر وارث شاہ کا جنڈیالہ شیر خان اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جاۓ اس کا تاریخی پسِ شیخوپورہ سے بھی پرانہ ہے اور یہ شیخوپورہ سے پہلے بسایا گیا تھا
تاریخ پس منظر دیکھا جاۓ تو کوئی خاص مستند تاریخی دستاویزات نہیں ملتیں سوائے تزک جہانگیری اور شاہجہاں نامہ میں موجود چند سطروں کے جو اس کا نام اور مقام بتانے تک محدود ہیں ۔
جنڈیالہ شیر خان مغلیہ دور میں ایک اہم شہر تھا جو اکبر بادشاہ نے اپنے ایک معتمدِ خاص شیر خان کو جاگیر کے طور پر عنایت کر رکھا تھا۔
کہتے ہیں اس علاقے میں جنڈ کے درخت زیادہ ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے اسے جنڈ یالہ شیرخان کا نام دیا گیا۔ 1893 میں اس قصبے کو حافظ آباد سے الگ کر کہ خانقاہ ڈوگراں کے ساتھ ملا دیا گیا بعد میں یہ شیخوپورہ کا حصہ بنا۔
اس قصبے کی پہچان دو مشہور جگہیں ہیں ایک تو پیر سید وارث شاہ کا مزار اور دوسری ۔باٶلی۔
باؤلی ایک ایسے گہرے کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیاں بنائی گئی ہوں اور اس کے ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی ٹھنڈے رہتے ہیں۔ گزرے وقتوں میں اُمراء یہاں آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے. عام طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں (باؤلیاں) ضروری ہوتے تھے۔ شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوٸیں لیکن بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے طور پر مستقل موجود رہیں۔ جہاں بھی مغل اور شیر شاہ سوری کے دور کے قلعے موجود ہیں وہاں یہ باؤلیاں ضرور ملتی ہیں لیکن زیادہ تر باٶلیاں اور مسجدیں شیر شاہ سوری نے بنواٸیں جیسا کے عظیم جرنیلی سڑک بھی شیر شاہ سوری کا کارنامہ تھی۔
بادشاہ اکبر کے دور میں شیر خان نے ایک بزرگ سید غزنوی کے حکم پر ایک باؤلی تعمیر کروائی جو یہاں کے لوگوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔ باؤلی کی سیڑھیوں پر ہی شیر خان نے ایک سرائے بھی تعمیر کروائی جس میں لاہور سے کشمیر جانے والے مسافروں کو مقامی تاجر اپنا سامانِ تجارت بیچا کرتے تھے۔
اسی باؤلی کے ایک کونے پر مسافروں کے لیئے مسجد تعمیر کروائی گئی جو آج بھی قائم ہے۔
باؤلی مغلیہ طرز تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس کی چوکور عمارت کے مرکز میں ایک بڑے گنبد والا کمرہ ہے جو آٹھ چھوٹے چھوٹے کمروں سے گھرا ہوا ہے جنہیں ''ہشت بہشت'' یعنی آٹھ جنتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس باؤلی کا راستہ شمال میں موجود وہ سیڑھیاں ہیں جس کی محراب پر پتھر کا کُتبہ لگایا گیا تھا۔ باؤلی کی چھت پر پانچ خوبصورت کھمبے، کینوپی یا ہشت پہلو واقع ہیں جو گنبد اور محرابوں سے مُزین ہیں۔ ان میں مرکزی احاطہ قدرے بڑا جبکہ چار کونوں پر واقع کینوپی چھوٹے اور ایک سائز کے ہیں۔
یہ پنجاب میں موجود چند خوبصورت باؤلیوں میں سے ایک ہے۔ دیگر باؤلیاں قلعہ روہتاس ، واں بھچراں، دینہ، اٹک۔بھمبر سراۓ عالمگیر گجرات اور واہ میں واقع ہیں۔
نوٹ۔ پیر سید وارث شاہ کا زکر اور تاریخ کسی اور پوسٹ میں کیا جاۓ گا۔

Post a Comment

0 Comments