چترال

چترال

چترال
قدرت کے قابل دید مقامات جن کو دیکھ کر آنکھ جم جاتی ہے اور دل و دماغ اس سحر انگیز خوبصورتی اور شان الہٰی میں کھو جاتا ہے اور زبان پکار اٹھتی ہے سبحان الله
چترال پاکستان کے شمال مغرب میں کوہ ہندوکش میں واقع ہے ۔ چترال بلند وبالا چوٹی ترچ میر کے دامن میں واقع ہے
مرکزی شہر چترال دریائے چترال پر واقع ہے جسے دریائے کنڑ بھی کہا جاتا ہے۔










چترال کی قدیم تاریخ درداس ،پلولہ سلطنت , گندھاراتہذیب , کشان سلطنت ، ہندو شاہی دور اورکاتور شاہی سے وابستہ ہے۔ 1571ء کے بعد سے چترال میں 1947ء تک کاتور شاہی کا راج رہا۔ چترال کے حکمران مہتر کہلاتے تھے چترال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس ریاست نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا وہ چترال کی ریاست تھی اس ریاست نے غیر مشروط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس ریاست کا بادشاہ ہوتا تھا جسے کھوار میں میتار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا اور اس کی بادشاہی کو میتاری کہا جاتا تھا










چترال میں چھ زبانیں ایسی ہیں جو کافی قدیم زمانے سے بولی جارہی ہیں۔ یعنی کھوار، کیلاشہ، دمیڑی، گوار باٹی، یدغلہ اور پلولہ
وادی چترال کے قابل دید مقامات میں ترچ میر چوٹی، چترال میوزیم ، شاہی مسجد ، شاہی قلعہ ، گرم چشمہ ، وادی ایون ،ایون قلعہ, شندور پولو گراؤنڈ ، وادی کالاش ،قاقلاشت اور مدوغلاشت میڈوز ,بونی ,مستوج اوروادی کیلاش شامل ہیں











یہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے۔ جو چترال شہر سے کافی فاصلے پر واقع ہے
اپنے ثقافتی ورثے کو برقرار رکھنے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں دو حصے ہیں۔ پہلی گیلری میں زیورات ، آلات ، شاہی خاندان کے آباواجداد کا فرنیچر اور دوسری گیلری میں آثار قدیمہ اور کالاش قبیلے کی اشیا شامل ہیں جس میں یونانی ثقافتی ورثہ اور مذہبی چیزیں شامل ہیں۔
شاہ شجاع الملک نے 1924ء میں تعمیر کی تھی جنہوں نے چترال پر 1895 ء سے 1936ء تک حکمرانی کی۔ مسجد کی عمارت واقعتاً فن تعمیر کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔











شاہی قلعہ نادر شاہ کی رہائش گاہ کے لئے چودھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا 1977ء میں اسے شاہ افضل دوم نے بحال کیا ۔
اس کو اپنا انوکھا نام ملا کیونکہ چشموں میں عام طور پر ٹھنڈا پانی ہوتا ہے مگر اس کا پانی گرم ہے
ایون ویلی کالاش ویلی اور نورستان کا گیٹ وے ہے
ایون ضلع چترال کا ایک گاﺅں ہے جو چترال شہر کے جنوب میں بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر پر واقع ہے۔
اسی طرح وادی بمبوریت ہے جو ایون سے آگے ہے، یہ کالاش کی تین وادیوں میں سے ایک ہے۔
چترال سے لگ بھگ دو گھنٹے کا سفر کرکے بمبوریت پہنچا جاسکتا ہے۔ ۔ یہاں پر کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے 1800 افراد آباد ہیں
چترال شہر سے35 کلو میٹر دورجنوب میںں وادی ’’کیلاش‘‘ واقع ہے ۔











وادی کیلاش میں رمبور، بریر اور بمبوریت تینوں وادیاں پہاڑوں کے تین علیحدہ سلسلوں میں واقع ہیں۔ ان تینوں میں سب سے خوبصورت اور بڑی وادی بمبوریت ہے۔ وادی کے درمیان میں بہتی نیلگوں شفاف پانی کی ندی قابل دید ہے
کیلاش کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔اس وادی کے تینوں گاٶں میں کیلاش قبیلے کے لوگ آباد ہیں











کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار 200 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس قبیلے کے لوگ کیلاش کی تینوں وادیوں میں مقیم ہیں، لیکن ان کی اکثریت بمبورت میں رہتی ہے۔ کیلاش کا مطلب ہے ’کالے کپڑے پہننے والے‘، اس نام کی وجہ مقامی لباس کو دیکھنے پر معلوم ہوجاتی ہے۔ یہاں کی خواتین سیاہ لمبے فراک نما کُرتے پہنتی ہیں











چترال کی زمین پر موجود وادئ کیلاش ایک دل نشین وادی ہے۔ یہاں کی خوبصورتی، ثقافت اور تہواروں کے رنگ بہت دلکش ہیں یہاں کیلاش قبیلے کے لوگ ہر سال دو تہوار مناتے ہیں چلم جوشی اور چاموس جب کے بارے پوسٹ پہلے ہو چکی ہے اور آگے چل کے رپیٹ پوسٹ بھی ہو گی
چلم جوشی تہوار موسم گرما کے آغاز میں جبکہ چاموس تہوار دسمبر میں منایا جاتا ہے












شندور پاس
ضلع غذر اور ضلع چترال کے سنگم پر شندور پاس ہے جو اپنے بلند ترین شندور پولوگراٶنڈ کی وجہ سے مشہور ہے یہاں ہرسال پولو فیسٹیول ہوتا ہے۔












ہزاروں کی تعداد میں سیاح قدرت کے شاہکار نظاروں کو دیکھنے آتے ہیں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ یہ ایک محفوظ مقام ہے جہاں آپ آسانی سے ہر جگہ سیر کرنے کے ساتھ رہاٸش بھی رکھ سکتے ہیں ہوٹلز اور مقامی لوگ آپ کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں انتہاٸی مہمان نواز اور ملنسار لوگ ہیں جن کا زریعہ معاش زیادہ تر کھیتی باڑی مویشی پالنا ہے

پاکستان سیاحوں کی جنت ہے 

Post a Comment

0 Comments