صفدر آباد

صفدر آباد

صفدر آباد
ضلع شیخوپورہ کی تحصیل۔
پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے تقریباً 85کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ریلوے اسٹیشن کی حیثیت سے سے واقع ہے.اس علاقے کی آبادی 50،000 سے زیادہ ہے






صفدر آباد,جو پہلے منڈی ڈھاباں سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا جو اک سکھ ڈھاب سنگھ کے نام سے منسوب تھا
پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کا ایک شہر جو ایک مشہور اناج منڈی تھا اس کو انگریز دور میں آباد کیا گیا اور اس نوآباد قصبہ کو 1876 میں آباد کیا گیا اس نۓ آباد کیے گے علاقے میں سکھ آباد ہونا شروع ہو گے اور یاں اچھی آبادی ہو گٸ نٸ آباد کاری کے منصوبے کے بعد اس علاقے میں سکھوں کی بڑی آبادی اور اور اثر قاٸم ہوا شروع میں منڈی ڈھاب سنگھ صرف ایک ریلوے اسٹیشن تھا جو آہستی آہستہ ایک بڑے قصبے میں تبدیل ہوتا گیا






چوہدری چونی لال (ایک ہندو کاروباری سرمایہ کار) کے بعد شہر نے ایک نئی شکل اختیار کرلی تھی۔چونی لال ایک بہترین کاروباری شخصیت تھا اور اس نے شہر کے تقریبا 80٪ کی ملکیت حاصل کی تھی۔ "چودھری کاٹن مل" کے نام سے ایک روئی کی فیکٹری بھی تعمیر کی جس نے ناصرف علاقے کی عوام کو روزگار دیا بلکہ شہر کا نام روشن کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا یوں وقت کی تیز رفتاری جاری رہی اور آج یہ شہر منڈی ڈھاباں سنگھ سے صرف منڈی ڈھاباں بننے کے بعد آخر صفدر آباد کے نام سے جانا جانے لگا۔






اس کا شہری رقبہ لگ بھگ 600 ایکڑ ہے۔ 2005 تک یہ ضلع شیخوپورہ کی ایک تحصیل تھی ، لیکن اسی سال میں شیخوپورہ تقسیم ہوا اور ضلع ننکانہ صاحب تشکیل دیا گیا تو صفدر آباد کو ننکانہ صاحب میں شامل کر دیا گیا تین سال تک یہ ننکانہ صاحب سے منسوب رہا اور آخر 2008 کو پھر صفدرآباد کو دوبارہ شیخوپورہ میں شامل کر دیا گیا جو آج ضلع شیخوپورہ کی تحصیل ہے






جس کا نام صفدر آباد صفدر الحق ڈوگر کے نام سے منسوب تھا جسے "چھبہ ڈوگر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ پنجا اسمبلی کا ممبر تھے جسے 1989 میں پنجاب اسمبلی لاہور کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔






اس وقت کے وزیر اعلی ، میاں نواز شریف نےصفدرالحق کی موت کے بعد اپنے دورے پر اس شہر کا نام اس کے نام پر رکھ دیا ، لیکن جب رائے اعجاز نے 1993 میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت لیا اور جب وہ جنگلات کے صوبائی وزیر بنے تو پھر ایک باران کے والد حاجی احمد حسن کے والد صفدر آباد کو "احمد پور" کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اور رائے اعجاز۔ 1997 میں عام انتخابات میں ایک بار پھر ڈوگر گروپ نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت لیا اور میاں شہبازشریف سے شہر کے نام کے بارے میں ایک بار پھر نوٹیفکیشن جاری کرنے کو کہا ، شہبازشریف نے "صفدرآباد" کا نام بحال کردیا۔ شہر کا نام بار بار بدل کر رکھنےکی وجہ صرف ایک دہائی سے مشتمل یہ تزبزب جاری رہا۔






اس وقت کے ڈی پی او شیخوپورہ اور کچھ دیگر عہدیداروں نے ہی ڈوگر اور راجپوت دونوں گروپوں میں صلح کروا کے اس مسلہ کو ختم کرنے کی درخواست کی تھی۔ دونوں گروپوں کو متفق کر دیا گیا یوں اس کا نام صفدر آباد پکا کر دیا گیا گاؤں ڈھاباں جہاں سید احسان علی بہادر کے والد حضرت سید بہادر علی شاہ گیلانی (قادری،نوشاہی) نے کئی سال گزارے اور لوگوں کو روحانی علم کی طرف راغب کرکے فیض یاب کیا۔ مزار میں موجود دو قبریں ہیں اس میں ایک سید موج علی شاہ خلیفہ کی ہے جو بابا سے نظام الدین شاہ ضلع ہوشیار پور انڈیا سے فیض یاب ہوئے. جبکہ دوسری قبر حضرت سید کرم علی شاہ گیلانی کی ہےجن کا تقریبا300 سال قبل انتقال ہوا سید کرم علی شاہ گیلانی دراصل حضرت مبارک شاہ حقانی کے فرزند ہیں۔جن کا مقدس مزار اچ شریف میں ہے۔اور بھی بہت سی روحانی شخصیات یہاں آسودہ خاک ہیں جن کا فیض اس شہر میں جاری ہے










ریلوے اسٹیشن صفدر آباد جو انیسویں صدی کے آس پاس برطانوی دور میں آباد کیا گیا یہ عمارت بھی دیکھنے کی قابل ہے
یہاں کٸ ایک سکول کالجز ہیں اور صحت کی سہولت بھی بہتر حالت میں میسر ہیں۔

لوگ کاشتکاری اور دیگر چھوٹے موٹے کاروبار سے منسلک ہیں 

Post a Comment

0 Comments