جمال گڑھی

جمال گڑھی

جمال گڑھی
جمال گڑھی مردان شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہے یہ کھنڈرات 1907 میں دریافت ہوۓ جس کے آثارِ قدیمہ کا ذکر بدھ مت کی قدیم کُتب اور تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ تاریخ یا بدھ مت کی کتابوں میں جمال گڑھی کے آثار قدیمہ کے ساتھ ساتھ ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی اور شہباز گڑھی کے کھنڈرات کا ذکر بھی ہے۔





جمال گڑھی آثارقدیمہ کے مشرق میں شکر تنگی، پیتے کلے، مغرب میں کنج، شیرو اور کٹی گڑھی، شمال میں جمال گڑھی، ساولڈھیر اور گدر کا علاقے اور جنوب میں شکرے بابا، کاٹلنگ بازار اور وہاں سے آگے سوات کی طرف جانے والے راستے ہیں۔





تاریخی احوال سے پتہ چلتا ہے دوسری اور پانچویں صدی کے درمیان جمال گڑھی کے انہی کھنڈرات میں کشان اور کشان کے بعد کی قومیں بھی آباد رہی ہیں جن کے آثار میں سے آج بھی بعض اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جن کو ایک منظم طریقہ سے بنایا گیا یہ آثار یہ بھی بتاتے ہیں کے کیسے یہاں اس شہر کو چلایا جاتا تھا اس کا نظم ضبط چلانے والے کس کس جگہ بیٹھتے ان کے کیا کام ہوتے شہر کے تحفظ و ترقی کے لیے کیا کام انجام دیے جاتے





ان کھنڈرات میں زیادہ تر دلچسپی پاکستانی سیاحوں کے علاوہ جاپانی کورین اور چینی سیاحوں کی ہے باہر سے یہاں آنے والے سیاح اسے اپنے مزہبی اعتبار سے بھی بہت اہمیت دیتے ہیں





سطع سمندر سے 3600 فٹ بلند یہ آثار آج بھی گزرے دور کی یاد دلاتے ہیں کس طریقہ اور مشقت سے ان کو بنایا گیا یہ آثار بھی مردان میں موجود تخت باٸی آثار سے ملتے جلتے ہیں اور اتنے ہی پرانے ہیں





ان آثار کے بالکل درمیان بادشاہ کا تخت ہوا کرتا تھا۔ تخت کے ارد گرد بادشاہ کا دیگر عملہ بیٹھتا اور اک نظام کی بہتری کے لیے اقدام اٹھاۓ جاتے یہاں سب کے بیٹھنے کی علیحدہ علیحدہ جگہیں تھیں یہاں تعلیم گاہیں تھیں مزہبی رسومات کے لیے علیحدہ جگہ مختص تھی مکمل طور پہ پوری منصوبہ بندی سے آباد کیا گیا یہ شہر آج سیاحوں اور مزہبی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے جس میں بدھ مت کے ماننے والوں کا مزہبی اور سیاحتی لگاٶ پورا سال دیکھنے کو ملتا ہے یہاں آج بھی جاپانی کورین اور چاٸنی لوگ اپنے کچھ نا کچھ مزہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔




پتھروں سے تعمیر کردہ یہ شہر آج بھی اچھے آثار باقی کا حامل ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے کچھ اہلکار یہاں اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں




بعض محقیقین کا خیال ہے کہ تخت باٸی۔شہباز گڑھی۔اور جمال گڑھی کے مابین ایک خفیہ رستہ جو زیر زمین ہوا کرتا تھا جو پہاڑ کے اندر سے ہوتا تھا جہاں سے یہاں بیٹھا بڑا بادشاہ دیگر بادشاہوں پہ نظر رکھنے یا نظم و زبط کی درستگی کے لیے استعمال کرتا۔
جمال گڑھی میں جہاں کشان قوم کے گھوڑے پانی پیتے تھی وہ جگہ بھی موجود ہے ان آثار کو دیکھ کر نا صرف گزری قوموں کے احوال کا علم ہوتا ہے بلکہ ان کی تباہی اور زوال کے بارے یا یہاں سے ان کی نقل مکانی کے بارے جاننے کا موقع بھی ملتا ہے اپنے اندر ایک تاریخ سموۓ یہ آثار قدیمہ جو پورے ضلع مردان میں پھیلے ہوۓ ہیں آج بھی آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور دیکھنے والے کو صدیوں پیچھے لے جاتے ہیں ۔




ضرورت اس امر کی ہے ان آثار کی مناسب دیکھ بھال ہو اور عالمی سیاحوں یا بدھ مت کے ماننے والے سیاحوں کی توجہ اس طرف زیادہ سے زیادہ دلاٸی جاۓ تاکہ ہمارے پیارے ملک کے ان آثار کو پوری دنیا جان سکے۔




نوٹ ۔مقامی سیاح یہاں بہت گند پھیلاتے ہیں التماس ہے یہاں اور پاکستان کے دیگر سیاحتی علاقوں کو صاف رکھیں جیسے ڈبے بوتلیں شاپر ساتھ لاتے ہیں استعمال کے بعد واپس لے جایا کریں مناسب جگہ ان کو ڈال دیا کریں تاکہ پاکستان میں آنے والے سیاح ہمیں اک مہزب قوم جانیں اور ملک کا نام روشن ہو۔ 

Post a Comment

0 Comments