کلاں کوٹ قلعہ

کلاں کوٹ قلعہ

کلاں کوٹ قلعہ
یا کلیان کوٹ قلعہ
کلاں کوٹ قلعہ ٹھٹھہ میں مکلی کے قبرستان سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اس کےبارے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ قلعہ کئی صدیوں قبل یہاں موجود تھا یا کہ یہ قلعہ اورنگ زیب کی میراث کے طور پر باقی رہ گیا تھا سندھ کے آرکایولوجسٹ پروفیسر بدر ابڑو کے مطابق یہ قلعہ تین سو پچاس سالوں سے یہاں موجود ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب تعمیر ہوا اور کس نے تعمیر کیا
اس کے علاوہ کچھ تاریخ دانوں کا مؤقف یہ بھی ہے کہ یہ قلعہ سندھ میں راۓ سلطنت کے دور میں تعمیر ہوا راۓ خاندان جزیرہ نما عرب میں حضور نبی کریم ﷺ‎ کی بعثت و نبوت کے دور میں بھی سندھ پر حکومت کرنے والا خاندان تھا۔ یہ خاندان بدھ مت کا پیروکار تھا اور راۓ سہاسی 632ء اس خاندان کا آخری حکمران گذرا ہے راۓ خاندان 450ء سے 632ء تک سندھ پر حکمران رہا۔




تاریخ دان اس کے نام پر بھی متفق نہیں ہیں کچھ کے نذدیک یہ کالا کوٹ یا کلیان کوٹ ہے کچھ کے نذدیک یہ تغلق آباد اور طغرل آباد کا قلعہ ہے۔ پروفیسر ابڑو کے مطابق قلعہ کے نام اس خطے پر حکمران رہنے والوں کی مناسبت سے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔مگر اس بات پر سب تاریخ دان متفق ہیں کہ یہ قلعہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت تک استعمال میں رہا۔
تاریخ معصومی کے مطابق اس قلعے کی تزئین و آرائش اور مرمت مرزا جانی بیگ نے سولہویں صدی میں کرائی تھا مگر مکلی نامہ کے مطابق اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں اس قلعے پر اسکےصوبے دار مرید خان کا کنٹرول تھا اور اس نے اسکی مرمت کروائی تھی بعد اسکے قلعے کی مرمت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔




اس قلعہ کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے اسکے مختلف ناموں میں قلعہ سمہ، کالا کوٹ اور کلیان کوٹ کے نام معروف ہیں اسکا پرانا نام تغلق آباد یا طغرل آباد تھا۔ یہ قلعہ چودہویں صدی میں ٹھٹھہ کے ساتھ تعمیر کیا گیا اور اسکا استعمال اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کے حکمرانی کے دور تک کیا جاتا رہا




بعد ازاں یہ قلعہ کیوں کب اور کیسے تباہ ہوا اس بارے کسی کو کچھ علم نہیں ۔اس کی تاریخ جو ظاہر کرتی ہے وہ یہ تغلق آباد کا قلعہ جام تیغور یا جام تغلق نے ٹھٹھہ شہر کے جنوب میں دو میل کے فاصلے پر کالا کوٹ کی پرانی طرز پر تعمیر کیا
مگر آثارات بتاتے ہیں کے یہاں کے حاکم جاموں کی طرف سے اسے مکمل کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ تغلق آباد لفظ کو یکسر فراموش کر دیا گیا تھا اور اس کے برعکس کالا کوٹ کو غلطی سے کلاں کوٹ پکارا جاتا رہا ، جسکا مطلب ہے ایک عظیم قلعہ کلاں کوٹ سے رفتہ رفتہ یہ کلیان کوٹ بن گیا اسکے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس کے نام کا مطلب امن و آشتی والی جگہ ہے۔
۔ بعض مؤرخین کے نذدیک کلاں کوٹ کا قلعہ کئی جنگوں اور سلطنتوں کے زیر استعمال بھی رہا۔ اور اس قلعے کا تعلق سندھ کے پہلے سومرہ امیر حکمرانوں سے ، جنکا عرصہ اقتدار چودہویں صدی عیسویں میں تھا ان سے جوڑا جاتا ہے۔مگر بدقسمتی سے اب یہ قلعہ اور اسکے آس پاس کی جگہ قبضہ مافیا کے چنگل میں ہے۔




تاریخ معصومی کے مطابق کلاں کوٹ قلعہ مرزا جانی بیگ نے سولہویں صدی کے آخری حصے میں بنوایا. یہ قلعہ اس جگہ پر پہلے سے موجود قدیمی قلعے کی باقیات پر بنایا گیا تھا جو جام طیغور یا جام تغلق نے تعمیر کیا تھا اور اس سےبھی قبل یہ ہندو مندر کی باقیات تھیں۔ مرزا جانی بیگ نے اکبر کے جرنیل خان خاناں کے ساتھ لڑتے ہوۓ اس قلعہ میں پناہ لی تھی بعد ازاں صلح کے بعد اکبر بادشاہ کے جنگجو دستے میں شامل ہوا اور سندھ میں مغلوں کی حکومت کو مستحکم کیا بہر حال اسوقت اس نے اپنے باپ پائندہ بیگ اور بیٹے کو اس جگہ ایک محفوظ مہاجر جگہ کے طور پر قلعہ تعمیر کرنے کے بارے لکھا یہ لوگ اس وقت ٹھٹھہ میں ہی موجود تھے اسکی ہدایات پر کلاں کوٹ کا قلعہ بنا۔ مغلوں نے اس قلعے کو بارود خانے کے طور پر بھی اپنے استعمال میں رکھا۔




شیر علی قانع نے اپنی کتاب مکلی نامہ میں کلاں کوٹ کی تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق فیروز شاہ بادشاہ دہلی نے سندھ پر جب حملہ کیا تو یہ کلاں کوٹ کو دیکھنے اور اس کو فتح کرنے کا خواہاں ہوا مگر باوجود کوشش وہ اس قلعے کو فتح نہ کر سکا اور یہیں سے واپس لوٹ گیا۔




کلاں کوٹ یا کالا کوٹ ، تغلق آباد یا طغرل آباد محققوں نے اپنے اپنے مطابق اسکی الگ الگ تاریخ بیان کی ہے مگر سچ کیا ہے اصل کیا ہے یہ تاریخ اتنی گڈ مڈ سی ہو گئی ہے کہ اس بارے اب اندازے ہی لگاۓ جا سکتے ہیں۔



1860 کے عشرے میں رچرڈ برٹن نے کلاں کوٹ کی باقیات دریافت کیں۔ کلاں کوٹ قلعے کی خستہ حال عمارات ہمیں اپنے عہد رفتہ کے قصے سناتی ہیں اس شہر پر کئی حکمرانوں کئی سلطنتوں کی حکومت قائم رہی اور کئی حاکم ، امیر اور بادشاہ اس قلعے میں مصیبت کے وقت پناہ گزیں بھی رہے اس لحاظ سے اس بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قلعہ دفاعی مقاصد کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں تباہ حال مندر کی باقیات بھی ہیں جو آج بھی ہندو انہیں دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ انکے بارے یہ بات بھی مشہور ہے کہ کسی دور میں یہاں ہندوؤں کی طرف سے قربانیاں بھی دی جاتی تھیں. داراشکوہ نے جب ٹھٹھہ کا جلاؤ گھیراؤ کیا تو اس علاقے کے لوگوں نے کلاں کوٹ قلعے میں ہی پناہ لی تھی۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اس قلعے کی تعمیر کب اور کس نے کرائی۔اور یہ قلعہ کب اور کیسے تباہی کا شکار ہوا۔



کلاں کوٹ کی جھیل
کلاں کوٹ قلعے میں ایک بڑی جھیل بھی ہے جو 150 ایکڑز پر پھیلی ہوئی ہے اور یہی جھیل قبضہ مافیاز کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے یہاں پر اس دور میں بھی پانی کی بہتات ہے اور قبضہ مافیاز اس جھیل سےپانی کا بے دریغ اخراج کر رہے ہیں اور قریباََ تیس ایکڑز تک جھیل کو خالی کر چکے ہیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے قلعے کے گردا گرد اپنے ٹھکانے بناۓ ہوۓ ہیں۔ یہ جھیل قدیم دور میں ایک کھائی کا کام دیتی تھی جو اس قلعے کی حفاظت اور یہاں کے رہائشیوں کی حفاظت کے طور پر بنائی گئی تھی۔ اس جھیل کو ڈائریکٹلی دریاۓ سندھ سے جوڑا گیا ہے جس میں سندھ کا پانی مسلسل رواں رہتا ہے. بہر حال حکومتی عدم توجہی اور حکام بالا کے ساتھ ساتھ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم دلچسپی کے باعث کلاں کوٹ قلعہ اور جھیل مزید تباہی سے دوچار ہے۔بے بسی کا یہ عالم ہے کہ تاحال اس بارے کسی کو علم نہیں کہ یہ قلعہ یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ لسٹ میں بطور محفوظ اثاثہ درج کرانے کے لیے بھی ریکومنڈ کیا گیا ہے یا نہیں۔۔؟ یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے تاریخی ورثے کو بیش بہا لوٹا جا رہا ہے جبکہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذمہ داران اور حکام اس طرف سے مسلسل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔




کلاں کوٹ کا قلعہ ایک وسیع اور بے قائدہ مستعطیل طرز پر مبنی ہے. قلعہ کی دیواریں چوڑی ہیں اور اسکے برج گیلی مٹی کی اینٹوں کے بنے ہوے ہیں اور اسکی دیواریں بھٹی پر پکی اینٹوں سے بنی ہیں جن پر گیلی مٹی کا لیپ ہے۔ بھٹی کی اینٹوں پر مشتمل دیوار کی موٹائی دس انچ تک ہے۔ عمارتوں کے ڈھانچے اور باقیات اب بھی کسی حد تک موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ قلعہ مختلف سیکٹرز میں تقسیم تھا ہر حصہ کئی طرح کے رہائشی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ قلعہ کی فصیلی دیوار یا تباہ حال برجوں کی خستہ حال عمارات کے ماسواے اور یہاں کچھ باقی نہیں رہا۔ یہاں ایک مسجد کی باقیات بھی ہیں جس میں ایک تالاب اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments