چنیوٹ

چنیوٹ

چنیوٹ:








چنیوٹ دنیا بھر میں ہاتھ سے بنے لکڑی کے فرنیچر کی وجہ سے مشہور ہے لیکن اس کے علاوہ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے بھی کافی مشہور ہے۔چنیوٹ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے جیسے 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کے دور میں یہ 'اجبن' کے نام سے جانا جاتا ہے۔بلال زبیری کی کتاب تاریخ جھنگ کے مطابق 242 قبل مسیح میں ہندو راجہ اشوک کے دور حکومت میں جب یونانیوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس کا نام 'اسکایٹ' رکھ دیا۔







لوگوں کا ایسا بھی ماننا ہے کہ قدیم دور میں ایک ہندو رانی 'چندر ونی' نے دریائے چناب کے کنارے سیر و تفریح کی غرض سے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔اس قلعے کو اس زمانے میں آؤٹ یا وٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اسی کی مناسبت اس علاقے کو چندر وٹ یا چندر اوٹ کہا جانے لگا۔معروف تاریخ دان اور تصویر جھنگ کے مصنف ایس ایم خالد کے مطابق 180 عیسوی میں چین نے کشمیر کے راستے پنجاب پر حملہ کیا تو چنیوٹ کے علاقے میں بھی ایک مضبوط قلعہ بنایا اور اس کی نسبت سے ہی اسے چنیوٹ کہا جانے لگا۔








معروف مؤرخ یعقوبی کے مطابق محمد بن قاسم کے دور 711 عیسوی میں چنیوٹ کو جندور کہا جاتا تھا اور یہ صوبے کا درجہ رکھتا تھا۔تاریخ دان کے مطابق محمد بن قاسم نے جب اپنے مفتوح علاقے کو پانچ صوبوں ملتان، جندور (چینوٹ)، روہڑی، شورکوٹ اور کوٹ کروڑ میں تقسیم کیا تو جندور (چنیوٹ) کے لیے ہزیم بن عبدالملک تمیمی کو یہاں کا گورنر بنایا۔تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اس علاقے پر کوئی مسلمان گورنر مقرر ہوا اور اسے صوبے کا درجہ دیا گیا۔واضح رہے کہ تمیمی خاندان ابھی بھی چنیوٹ میں آباد ہے۔







تاریخ فرشتہ جلد دوم میں عتبہ، ابن عشیر اور البیرونی لکھتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے دور میں چنیوٹ کا رقبہ ایک جانب کوہستان تک پھیلا تھا اور دوسری جانب واڑ سلیمان سے ساندل بار، کچھی اور وچہن تک تھا۔تصویر جھنگ کے مصنف ایس ایم خالد کے مطابق سلطان محمود غزنوی کے بعد غوری، خلجی اور تغلق خاندانوں نے بھی چنیوٹ پر حکومت کی۔ان حکمرانوں کے ادوار میں پنجاب کے علاقوں میں مختلف انتظامی تبدیلیاں کی گئیں جس کے بعد ریاست چنیوٹ سے بہت سے علاقے الگ ہو گئے۔تاریخ دان لکھتے ہیں کہ لودھی خاندان نے جب 1462 عیسوی میں سیالوں کو جھنگ کی حکمرانی عطاء کی تو ان کی نظر چنیوٹ پر رہنے لگی۔








کیونکہ اس علاقے میں مغل حکمرانوں نے بہت سے قلعے، فوجی چوکیاں اور اصطبل تعمیر کروا رکھے تھے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ علاقہ کافی اہمیت کا حامل تھا۔ایس ایم خالد لکھتے ہیں کہ جھنگ کی ریاست مال گزاری لاہور کے گورنر کو ادا کرتی تھی۔سیال خاندان کے تیرہویں حاکم ولی داد خان نے گورنر لاہور کے نمائندے کو چنیوٹ آ کر مال گزاری ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا۔اس کے بعد نواب ولی داد خان نے گورنر لاہور سے رابطہ کیا جس پر انہیں گردونواح کی تمام ریاستوں سے مال گزاری جمع کرنے کا اختیار نامہ مل گیا۔ اس طرح چنیوٹ مستقل طور پر جھنگ کا حصہ بن گیا۔







وہ لکھتے ہیں کہ 1800 عیسوی میں سردار گنڈا سنگھ کے بھتیجے سردار وسو سنگھ نے سیالوں کے قلعہ دار انوپ سنگھ سے ساز باز کر کے اس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔سیال حاکم عنایت اللہ خان کو اس سازش کا علم ہو گیا اور وہ اپنے لشکر کے ہمراہ چنیوٹ پہنچ گئے۔ انہوں نے وسو سنگھ کو وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا جبکہ انوپ سنگھ کو قتل کر دیا۔اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے سکھوں نے 1801 میں چنیوٹ پر دوبارہ حملہ کیا اور چنیوٹ کو فتح کرنے کے بعد وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔برصغیر میں انگریزوں کی حکمرانی کے بعد جب جھنگ کو ضلع بنایا گیا تو چنیوٹ اس میں شامل کر دیا گیا۔







قیام پاکستان کے بعد 2009 تک یہ جھنگ کا حصہ رہا لیکن اس کے بعد یہ الگ ضلع بن گیا۔اس کی تین تحصیلیں ہیں جن میں چنیوٹ، بھوانہ اور لالیاں شامل ہیں۔ یوں تو چنیوٹ میں کئی مذہبی, ثقافتی, اورتاریخی مقامات ہیں لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ, عمر حیات کا محل, دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کی چلہ گاہ کافی مشہور مقامات ہیں۔بادشاہی مسجد چنیوٹ جوکہ بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنائی گئی ہے چنیوٹ کی خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔






اسے پانچویں مغل بادشاه شاہ جہاں کے وزیر سعدالله خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا مسجد مکمل طورپر پتھر کی بنی ہوئی ہے۔اس کے تمام دروازے لکڑی کے بنے ہوئےہیں اور آج تک اس کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ شاہی مسجد چنیوٹ کا فرش سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔مسجد کے صحن کا فرش سنگ مرمر سے بنا تھا۔ اسے 2013ء میں سنگ مرمر سے اینٹوں کے فرش میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم مسجد کا اندرونی فرش ابھی تک سنگ مرمر کاہی ہے۔






مسجد کے سامنے موجود شاہی پارک مسجد کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے۔چنیوٹ کا پل یا چناب نگر پُل کنکریٹ (concrete) سے بنا ایک پل ہے۔ جو چنیوٹ میں دریائے چناب پر واقع ہے۔ یہ 520 میٹر لمبا ہے جبکہ 17۔8 میٹر چوڑا ہے۔ یہ ختم نبوت چوک سے 4.6 کلو میٹر اور چنیوٹ ریلوے سٹیشن سے 3.3 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

Post a Comment

0 Comments