جنڈ ۔ Prosopis cineraria

جنڈ ۔ Prosopis cineraria

جنڈ۔
جنڈ کا نام نباتاتی نام 'پروسوپس سناراریا-( Prosopis cineraria ) اس کا خاندان 'فیبی ایسی' -( Fabaceae ) ہے۔
سنسکرت اور گجراتی میں اس درخت کو سمی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں خوشی کے مواقعوں پر جنڈ کی لکڑی کی آگ کے گرد لڑکیاں ایک دلفریب رقص کیا کرتی تھی جسے آج بھی سَمّی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پاکستان میں اب بھی پنجاب کے کچھ علاقوں میں یہ رقص باقی ہے۔ سَمّی سے گاؤں کے کلچر سے جڑے لوگ باخوبی واقف ہوں گے۔ یہ رقص دراصل مردوں کے رقص جھومر کا متبادل ہے۔ یہ خوبصورت رقص سَمّی ، پنجاب کی ثقافت کو جنڈ کا ہی تحفہ ہے۔
یہ رقص ڈھول کی ایک مخصوص دھن پر کیا جاتا ہے۔ یہ دھن عموماً شادی بیاہ کے مواقع پر بجائ جاتی ہے ۔



ایک لڑکی درمیان میں کھڑے ہو کر مشہور لوک پنجابی سَمّی نظم " سَمّی میری وار میں واری، میں ورای آں نی سَمّی اے “ گاتی ہے اور باقی دائرے میں اس کے گرد گھوم کر رقص کرتی ہیں اور تالی سے تال دے کر سماں باندھ دیتی ہیں۔ یہ رقص ماضی کے ہمارے سماج میں جنڈ کی حیثیت اور اہمیت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
جنڈ پاکستان اور بھارت میں پھیلے ہوئے صحرائے تھر کی بائیو ڈائیورسٹی کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ برصغیر کے علاوہ امارات، اومان ، یمن ،سعودی عرب ،ایران اور افغانستان میں بھی پایا جاتا ہے۔
جنڈ درمیانےقد کا ایک سایہ دار درخت ہے۔جنڈ قد کاٹھ اور وضع قطع میں کیکر سے مشابہ ہوتا ہے لیکن پتوں کی ساخت اور پھولوں میں فرق ہونے کی وجہ سے پہچانا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی پہچان تو اس کے کانٹوں سے ہوسکتی ہے۔
کیکر کے دو سے تین انچ لمبے نوکیلے کانٹوں کے بر عکس جنڈ کے کانٹے چھوٹے اور گلاب کے کانٹوں جیسے ہوتے ہیں۔
صحرائے تھر کی ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک بکری، ایک اونٹ اور ایک جنڈ کا درخت ہے تو سخت سے سخت حالات میں، یہاں تک کہ قحط کے زمانے میں بھی موت اس تک نہیں پہنچ سکتی۔



اس کی لکڑی مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے اور گھروں کے شہتیر بالے اور دروازے کھڑکیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ اس کی پتلی لمبی شاخیں گھروں کی چاردیواری اور بھیڑ بکریوں کے باڑے وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کی پھلیاں جانوروں کا پسندیدہ چارہ تو ہوتی ہی ہیں مگر انسان بھی اس کا ساگ شوق سے کھاتے ہیں۔ ان پھلیوں کا ساگ صحرائے تھر کا من پسند کھانا ہے۔
پینتیس سے چالیس فٹ اونچا جنڈ تیزی سے بڑھتا ہے۔ اس کی جڑیں انتہائ تیزی سے زیرِ زمین ایک جال بن لیتی ہیں، جبکہ مرکزی جڑ انتہائ گہرائ میں جا کر اس کو دیکھ بھال کے جھنجٹ سے آزاد کر دیتی ہیں. مرکزی جڑ کو 120 فٹ گہرائی تک بھی دیکھا گیا ہے۔ کیکر کا قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے یہ بھی نائٹروجن کو قابل استعمال حالت میں تبدیل کر کے زمین کی زرخیزی بڑھاتا ہے۔
صحرا کے سخت ترین حالات (لمبی خشک سالی ، پانی کی کمیابی اور بلند ترین درجہ حرارت میں) بھی سرسبز رہتا ہے۔ 100 ملی میٹر بارش والے علاقوں میں بھی یہ خوشی سے پھلتا پھولتا ہے۔
اس درخت سے ہم وطنوں کا رشتہ اتنا گہرا ہے کہ اس کے نام پر ہیر لکھنے والے وارث شاہ کے گاؤں (جنڈیالا شیر خان) اور امریتا دیوی کے گاؤں کے علاوہ امارات میں ایک شہر کا نام بھی ہے،اماراتی تو اس کے نام پر بچوں کا نام بھی رکھتے ہیں.
امارات میں اسے قومی درخت کا درجہ بھی دیاگیا ہے۔ اس کی بڑے پیمانے پر کاشت کی گئی ہے اور اس کا کاٹنا ممنوع قرار پایا ہے
جنڈ اور پاکستان کے دوسرے مقامی درخت ہمارے ملک کے قدرتی اثاثے ہیں جو خدا کی جانب سے ہمارے خطے کو عطا کیے گۓ ہیں، مگر اب ان کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوام کا مقامی کی بجاۓ غیر مقامی پودے لگانا بھی ہے۔ غیرمقامی پودے ماحول کے لیے نقصاندہ ہونے کے ساتھ ساتھ آب و ہوا ،ماحول اور بیماریوں سے مقامی پودوں کی نسبت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں اور آپ کے قیمتی وقت اور وسائل کے ضائع ہونے کا سبب بھی۔




سر سنتے رکھ رہے تو بھی سستو جان(سر دے کر درخت کو بچایا جاسکے تو بھی یہ سودا سستا ہے)“
یہ تھے وہ آخری الفاظ جو امریتا دیوی نے کہے اور اس درخت سے لپٹ گئیں جسے ان کے بار بار سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود ریاست جودھپور کے راجا ابھئے سنگھ کے سپاہی لکڑی کے حصول کے لے کاٹنا چاہتے تھے۔
امریتا دیوی کے درخت کے ساتھ کٹنے کے بعد ان کی تینوں بیٹیوں آسو، رتنی اور بھاگو بائی نے بھی ماں کی پیروی کی اور ایک ایک درخت کے ساتھ لپٹ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
درختوں سے محبت کا یہ انوکھا واقعہ ستمبر 1773 کا ہے جب راجا ابھئے سنگھ کو ایک نیا محل بنانے کے لیے بڑی مقدار میں لکڑی کی ضرورت تھی۔



سپاہی حکم کی تعمیل میں امریتا دیوی کے گاؤں بھی جا پہنچے۔صحراۓ تھر کا یہ گاؤں ،بشنوئی عقیدے کو ماننے والوں کا تھا۔ اس عقیدے کے لوگ گرو جم بھیشور جی کے اُنتیس ماحول اور انسان دوست اصولوں کی وجہ سے بشنوئی (بِس مطلب 20 اور نوئی مطلب 9) کہلاتے ہیں۔ بشنوئی عقیدے میں کسی بھی جانور کا شکار کرنا اور کوئی سر سبز درخت کاٹنا ممنوع ہے اور کسی بھی حالت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
امریتا دیوی اور ان کی بیٹیوں کی قربانی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی اورآس پاس کے 83 گاؤں کے لوگوں نے درختوں کو بچانے کے لیے ان سے لپٹ کر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا شروع کردیا۔
جب تک راجا کو خبر ہوئی اور اس کی مداخلت سے سپاہیوں کے کلہاڑے رکے ، تب تک تین سو تریسٹھ (363) لوگ اپنی جانیں، اس درخت کے لیے قربان کر چکے تھے۔ راجہ نے اس افسوسناک واقعہ پر تمام متاثرین سے معافی مانگی اور اس علاقے میں کسی بھی قسم کے شکار اور درخت کاٹنے پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی آج بھی برقرار ہے۔
اس کہانی کے مرکزی کردار کیکر سے مشابہ درخت کو اردو اور پنجابی میں جنڈ کہا جاتا ہے ،یہ درخت راجستھان میں کھجری، سندھ میں کنڈی اور سنسکرت اور گجراتی میں اسے سَمّی کہلاتا ہے۔



مقامی پودے ماحول کو صاف کرنے کی منفرد صلاحیت ، تیز رفتاری سے ہر طرح کے موسمی حالات میں بڑھنے، زمین کی زرخیزی بڑھانے اور بہترین لکڑی پیدا کرنے جیسی خصوصیات سے مالامال ہیں۔ آپ کسی درخت سے اور کیا چاہتے ہیں؟ منقول 

Post a Comment

0 Comments