میسا حراتی Misaharati

میسا حراتی Misaharati

میسا حراتی
سحری میں جگانے والے
بچپن میں ڈھول والے آتے سحری میں ڈھول بجاتے آواز بلند کرتے ۔روزے دارو اللہ نبی ﷺ کے پیارو جنت کے حق دارو اٹھو سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ ہی آواز مسجد سے بلند ہوتی بوڑھا منادی کانپتی آواز میں بار بار یہ ہی کہتا رات کے اس پہر اٹاٹوپ اندھیرے میں نور کا سماں بندھ جاتا ہر طرف روزہ داروں کی چہل پہل ہو جاتی ڈھول والے کے ساتھ بھی بچے ہوتے ادھر گھروں میں بھی بڑوں کے ساتھ بچے اٹھ جاتے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھنے کے لیے سحری کرتے بامشکل دوپہر تک پہنچ پاتے تو دن کو ماں باپ یہ کہہ کر کھانا دے دیتے ۔تمہارا چڑی روزہ ہے یعنی آدھے دن کا اور بچے فخر اور مسرت سے پھرتے اور دوستوں کو بتاتے ہم نے بھی روزہ رکھا ہے ۔پھر روزوں میں جمعرات آتی تو اک عجیب سا سماں ہوتا کھانے پکوان کیا کیا پکتا اک دوجے کے گھروں میں بھیجا جاتا دعوت افطار ہوتیں ڈھول والے بھی آتے ان کو بھی بہت سی چیزیں اہل علاقہ کی طرف سے دی جاتیں پیسے دیے جاتے چھوٹی چھوٹی خوشیاں بڑی بڑی نیکیاں بن جاتیں۔
پھر ہم ترقی کر گے پڑھ لکھ گۓ ہر چیز کی سمجھ آگٸ اتنی زہنی پسماندگی کے ساتھ ترقی کی کے نا پوچھیے پھر مسلکی ترقی سوشلی ترقی اتنی بڑھی کے ڈھول والے بدعتی ہوگۓ یہاں تک کے مسجد سے ہوتی منادی بھی بدعت ہوگٸ کہیں کہیں شرک بھی تسلیم ہونے لگا کیونکہ ان اونچی آوازوں سے آرام میں خلل پڑتا کیونکہ ہمیں سٹیٹس بنانا تھا اس کے لیے ان روایتوں کا فرسودہ ہونا لازمی تھا ان پتھر اور جہالت کے دور کی رسموں کو بند ہونا لازمی تھا ہر چیز کا حل تلاش کر لیا بدعت کا شور اتنا بلند کیا کے نا پوچھیے۔




چھوٹی چھوٹی خوشیاں بڑی بڑی بدعتیں بن گٸ ۔ ۔
میں یہاں اک تحریر کاپی کرتا ہوں جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور ایسی پوسٹ کی
تحریر یہ ہے
سحری جگانے والے رسول الله صلی الله علیہ واعلی آلہ وسلم
کی حیات مبارکہ میں بھی آتے تھے
سن 2 ہجری میں صوم ( روزے ) فرض ہونے کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے





تاریخ کے اوراق کی گرد کو اگر جھاڑ کر دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ایک صحابی '' سیدنا بلال بن رباہ '' رضی اللہ وہ پہلے شخص تھے جو روزوں کی فرضیت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا لگا روحانیت کا سماں باندھ دیتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے تھے
'' سیدنا بلال بن رباہ '' رضی اللہ کی یہ سنت مدینہ المنورہ میں زور پکڑتی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی یہ خدمت انجام دینے لگے - ان سحری جگانے والوں کے ساتھ اکثر بچے بھی شوق میں شامل ہو جاتے اور رمضان کی سحری ایک خوشنما فیسٹول محسوس ہونے لگتی تھی - عربی میں سحری جگانے والوں کو '' میسا حراتی '' ( MISAHARATI ) کہتے ہیں
مدینہ المنوره کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری جگانے والے اس روایت کی پیروی کرنے لگے اور بھر یہ رواج پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا
'' میسا حراتی '' (MISAHARATI ) یہ فریضہ فی سبیل الله انجام دیا کرتے تھے لیکن انکی خدمت سے مستفید ہونے والے مسلمان انہیں مایوس نہیں کرتے تھے اور آخری صوم ( روزے ) والے دن انہیں ہدیہ انعام یا عیدی دیتے تھے
اس کے علاوہ مسجدوں کے امام مسجدوں کی چھتوں یا میناروں پر دیا یا روشنی جلا کر رکھ دیتے تھے اور با آواز بلند لوگوں کو سحری کے وقت کی اطلاع دیتے تھے - جہاں آواز نہیں پہنچ پاتی تھیں ، لوگ روشنی دیکھ کر اندازہ لگا لاتے کہ سحری کا وقت ہو گیا ہے
آہ کیا خوبصورت اور روح پرور رمضان ہوا کرتے تھے ۔





نوٹ شاید اب بھی کہیں ڈھول والے یا منادی والے ہوں اگر کہیں ہیں تو ضرور بتاٸیں مجھے تو بہت عرصہ ہو گیا نہیں سنا کسی کو ساٸرن ضرور بجتا ہے سحری افطاری میں۔ 

Post a Comment

0 Comments