معصوم مینار

معصوم مینار









 معصوم مینار

سکھر
میر محمد معصوم شاہ بکھری
جہاں سندھ میں بے شما روحانی ہستیاں ہیں وہاں سید میر محمد معصوم شاہ بکھری جو نظام الدین کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں
سندھ کے ایک مشہور عالم مؤرخ اور ادیب میر محمد معصوم شاہ بکھری کی تاریخ پیدائش 7 فروری 1528ء مطابق 7 رمضان 944ہجری ہے۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری تعلیم کے حصول کے اکبر اعظم کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں ان کی ملاقات عبدالرحیم خان خاناں سے ہوئی۔






آپ کا سلسلہ نسب سترہویں پشت میں جاکر حضرت سیدنا امام موسیٰ الکاظم سےملتا ہے انہوں نے ابتدائی تعلیم ملا کنگری سے حاصل کی بعدازاں کامل اساتذہ سے استفادہ کرتے رہے۔سید معصوم شاہ نہایت خوبصورت و دراز قد کے بہادر انسان تھے۔بچپن سے لے کر عالمِ شباب تک فنون سپہ گری و تیغ زنی کاذوق وشوق غالب رہا۔آپ کی جرأت وبہادری کے کارنامے سکھر شہر کے گردو نواح میں مشہور تھے





اس دور میں سندھ کا حاکم محمود خان جسے ہندوستان کے بادشاہ نے تعینات کیا تھا،اس نے میر معصوم کے کارناموں کی اطلاع، باشاہ جلال الدین اکبر کو دی ۔اکبر نے میر معصوم شاہ کواپنی فوج کا افسر مقرر کیا ۔اس وقت میر معصوم کی عمر 38 برس تھی۔فوج میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدوہ 20 سال تک اجمیر سمیت مختلف علاقوں میں فتنوں کو کچلنے میں مصروف رہے۔جنگ و جدل میں مصروف رہنے کے بعد جب آپ بکھر پہنچنے دو ماہ بعد ہی 4 اپریل1606ء کو وہ خالق حقیقی سے جاملے۔






میر معصوم شاہ کا مینار شہر کے وسط میں جہاں قائم کیا گیا ہے وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا جو شہر میں سب سے بلند و بالا مقام تھا، اس پہاڑی والے اونچے مقام پر سید نظام الدین شاہ عرف میر معصوم شاہ نے اس تاریخی مینار کو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور1003ھ میں میر صاحب نے مینار کی تعمیر کا کام شروع کرایا مینارکا کام آدھا بھی نہیں ہوا تھاکہ میر معصوم شاہ انتقال کرگئے جس کے بعد ان کے بیٹے نے والد کے ہی بنائے گئے منصوبے کے تحت یہ مینار 1027ھ کو مکمل کرایا اور ساتھ میں مشاعرے کے لئے ایک بارہ دری والا فیض محل بھی بنوایا تھا،جس پر میر معصوم شاہ کے اشعار اور رباعیاں لکھوائی گئیں






مینار میں پکی اینٹیں اور چن کا کام ہوا ہوا ہے، اینٹیں مکمل طور پر مضبوط ہیں، آرکیا لو جیکل سروے کے دوران مینار کی پیمائش کی گئی جس کے مطابق مینار ایک عجوبہ ہے ۔یہ مینار 84 فٹ چوڑا اور 84فٹ اونچا اور گولائی بھی 84 فٹ ہے اور اس مینار کی 84 سیڑھیاں ہیں اور بنیاد بھی اس کی 84 فٹ ہے جوکہ ایک عجیب حساب ہے ، سیڑھیاں مینار کے اندر سے گھومتی ہوئی اوپر پہنچ رہی ہیں، مینار کی چوٹی گنبد کی مانند ہے جس پر چڑھ کر دور دراز کے نظارے دیکھ سکتے ہیں ۔ سیڑھیوں کے درمیان مختلف جگہوں پر خوبصورت کھڑکیاں بنائی گئی ہیں تاکہ روشنی اور ہوا بھی آسکے۔عام روایت ہے کہ میر معصوم شاہ مینار کے لئے اینٹیں روہڑی کے قریب اروڑ کی قدیمی عمارتوں میں سے توڑ کر لائی گئی تھیں جبکہ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ اینٹیں شکارپور سے اسی طرز کی بنوا کر لائی گئی تھیں۔







میر معصوم ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت شاعر، مورخ، کتبہ نویس، طبیب اور ماہر تعمیرات تھے۔ ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ سندھ کی تاریخ بنام تاریخ معصومی ہے جسے انہوں نے فارسی زبان میں تحریر کیا ہے، اسے چچ نامہ کے بعد سندھ کی تاریخ کا سب سے اہم مآخذ مانا جاتا ہے، اس کتاب کو انہوں نے 1009ھ میں تصنیف کیا۔ اس کے علاوہ طب کے موضوع پر فارسی زبان میں طب نامی لکھی۔
شاعری میں دیوان نامی (فارسی) اور مثنویوں میں معدن الافکار، حسن وناز، اکبر نامہ اور پری صورت شامل ہیں۔
آپ کا مزار آپ کے نام سے موسوم مینار سے ملحقہ قبرستان میں واقع ہے۔

Post a Comment

0 Comments