ایبٹ آباد

ایبٹ آباد

ایبٹ آباد

ہزارہ ڈویژن کا خوبصورت پر امن اور قدرتی حسن اور خوشگوار موسم و آب ہوا کا مرکز ایبٹ آباد جس کی بنیاد برٹش دور میں سر جیمز ایبٹ نے 1849 میں مری کی بنیاد رکھنے کے ساتھ رکھی 1853 میں ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام کی حیثیت سے باقاعدہ اس شہر کو باقاعدہ طور پہ آباد کیا گیا۔اور پنجاب کے الحاق سے 1849 سے 1853 تک اس شہر سمیت ہزارہ ڈویژن کے پہلے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا














1901 میں اس نو آباد شہر کی آبادی 7764 افراد پہ مشتعمل تھی اس دوران سرکاری ادارے قاٸم کیے گۓ جیسے سکول ڈسپنسری وغیرہ
1911 میں آبادی 11506 ہوٸی پھر 1948 میں برطانوی ریڈکراس نے یہاں ہسپتال قاٸم کیا















قیام پاکستان کے بعد یہاں بھی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا 1998 کی مردم شماری میں شہر کی آبادی 881000 تھی جو 2017 کی مردم شماری میں تقریباً 22 لاکھ سے اوپر ہوگٸ جس میں بے پناہ اضافہ 2005 کے زلزلے کے بعد ہوا زلزلہ سے یہ شہر بھی متاثر ہوا لیکن ادر گرد کے متاثر شہروں کے لوگ یہاں پناہ گزین ہوۓ لیکن واپس نہیں گۓ یہاں ہی آباد ہوگۓ














اس شہر کے ہمساۓ مانسہرہ ہری پور صوابی مظفر آباد اور مری ہیں تاریخی اعتبار سے بھی اس شہر کی تاریخ بھی مانسہرہ کے ہم پلہ ہے یہاں بھی راجہ رسالو کی حکومت رہی جی کی باقیات یہاں سربن ٹاپ پہ موجود ہیں اور سربن پہاڑ کا نام بھی سادھو سرباہن کے نام سے ہی مشہور ہے جو قبل مسیح یہاں آیا














اسلام آباد سے 110 کلو میٹر پہ واقع سکولز اور کامیاب ڈاکٹرز کا شہر اگر کہا جاۓ کے شرح تعلیم کی بات کی جاۓ اس شہر کا سب سے زیادہ ہے تو بے جا نا ہوگا۔














یہاں گرمیوں کا موسم بھی لاجواب ہوتا ہے سردیوں میں شدید سردی اور پہاڑوں پہ بھاری برف باری اس شہر کا حسن ہے صنوبر چنار چیڑھ اخروٹ آلو بخارہ خوبانی کے درخت باکثرت ہیں اس ضلع کی پہچان بھی ہیں قدرت اس شہر پہ بہت مہربان ہے یہاں کی مختلف سیر گاہیں اپنے موسم اور دلکشی سے دور دراز سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں سطع سمندر سے 4120 فٹ بلند یہ شہر بہت سے قدرتی نظارے پیش کرتا ہے اس کی مشہور سیر گاہیں۔ نتھیا گلی۔ایوبیہ۔سمندر کٹھہ جھیل۔ٹھنڈیانی۔مشک پوری۔میرا جانی۔الیاسی مسجد۔شملہ ہل۔ہرنو۔ہزارہ آباشار۔جڑواں آبشار۔اور امبریلا آبشار پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں












اس کے علاوہ تاریخی اعتبار سے بھی یہ شہر اہمیت کا حامل ہے سربن پہاڑ کے ٹاپ پہ راجہ رسالو کی غاریں الیاسی مسجد جو 1930 میں موجودہ عمارت بناٸی گٸ اس کے نیچے موجود پانی جو صدیوں سے بہہ رہا ہے اس کے علاوہ یہاں کھانے کے حساب سے بھی بہت لزیز قلندر آباد کا کباب الیاسی کے پکوڑے گردوارہ گلی کے چنے قابل زکر ہیں۔











ٹھنڈیانی ٹاپ یہاں کا سرد اور اونچا مقام ہے جس کی اونچاٸی سطح سمندر سے 2700 میٹر ہے اس کے علاوہ میرا جانی ٹاپ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔یہاں بے شمار چھوٹی بڑی آبشاریں اور میٹھے ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی موجود ہیں اور بلکل نیا شاہکار ہزارہ موٹر وے اور شملہ ٹنل بھی ہے یہاں ہزارہ موٹروے پہ موجودہ دو ٹنل ایبٹ آباد کے سحر کو چار چاند لگا رہی ہیں سچ میں یہ وادی جنت نظیر ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments