سیت پور

سیت پور

سیت پور
تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ کے تاریخی قصبہ سیت پور کا شمار قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندوٶں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں بھی ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتاٶں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا، 300 سو قبل مسیح راجہ سنگھ کے نام سے دیو گڑھ اور اس کی دو بہنوں سیتا رانی کے نام سے سیت پور اور اوچارانی کے نام سے اُوچ شریف جیسے شہر آباد کیے گئے۔ سیت پور، علی پور سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔




تاریخی قصبہ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے سکندر اعظم جب ایران کے آخری کیان بادشاہ دارا سوم کو شکست دے کر پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے ملتان پہنچا تو ملتان میں ملہی قوم کے ہاتھوں زخمی ہوا اور پھر سیت پور سے ہوتا ہوا، بلوچستان کے راستے اپنے وطن لوٹ گیا۔ مرقع ڈیرہ غازی خان اور بندوبست 1872ء محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اسلام خان نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی، ڈسٹرکٹ گزٹیئر مظفر گڑھ کی روشنی میں لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور تھا، یہ حکومت راجن پور، شکار پور، علی پور اور کوہ سلیمان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔




روایت ہے کہ یہاں کا ایک حکمران بہت ظلم کرتا تھا۔ متاثرہ عوام نے انہیں ’’تابڑ‘‘ کا نام دیا جس کی وجہ سے حکمران’’تابڑ خاندان‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے، بہلول لودھی کے چچا اسلام خان لودھی نے جب ریاست کی بنیاد ڈالی تو اس کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا، اس بات کی تصدیق ’’تذکرہ روسائے پنجاب‘‘ سے بھی ہوتی ہے کہ ملتان کے گورنر بہلول لودھی نے اپنے دور میں اپنے چچا اسلام خان کو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے جنوبی اور سندھ کے شمالی حصے کا ناظم مقرر کیا، اسلام خان ثانی اور جلال خان، اسلام خان کے دو بیٹے تھے۔ اسلام خان ثانی سیت پور کی سلطنت کا اور جلال خان نے دکن میں حکمرانی کے مزے لوٹے یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم، اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں تک چلتا رہا۔




سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی، روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ طاہر محمد خان سخی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جو اب تک قائم ہے، مقبرہ میں طاہر خان سخی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے، ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے، اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔ کھجور کی لکڑی کا مرکزی دروازہ مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے، محرابوں کے راستوں نے اسے ہوا دار اور روشن بنا رکھا ہے۔




اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جو تاہڑ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے، تاہڑ خاندان کی حکومت اس وقت کمزور ہو گئی جب نادر شاہ کے دور میں شیخ محمد راجو اول نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا۔ بہاولپور گزٹیر میں لکھا ہے کہ شیخ محمد راجو نے نادر شاہ سے سیت پوری سلطنت کا پروانہ اپنے نام لکھوا لیا اور یوں تاہڑ خاندان کی حکومت ختم ہو کر رہ گئی۔




1781ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور نواب بہاول خان ثانی نے شیخ راجو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا 1790ء میں جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور کے مغرب میں ہوا تو نواب آف بہاول پور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں، یوں نواب آف بہاولپور نے علی پور، شہر سلطان، خیر پور سادات کے علاقے سیت پور سے ریاست بہاول پور میں شامل کر دیئے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی بچی کھچی ریاست کو اپنے قبضے میں لیا۔ یوں مخادیم کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی اور سیت پور ایک معمولی علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔




سیت پور تاریخی مقامات میں بہت بڑی پہچان کا حامل قصبہ آج بھی اپنے ماضی کی شان و شوکت بیان کرتا ہے جہاں موسم گرم خشک ہوتا ہے شام کافی خوشگوار ہوتی ہے سادہ لوح لوگ آپ کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے نظر آٸیں گے زیادہ تر یہاں لوگ زراعت سے منسلک ہیں مویشی بھی پالے جاتے ہیں قریب جوار میں اور بھی کافی خوبصورت اور تاریخی مقامات موجود ہیں 

Post a Comment

0 Comments