نہر لوٸیر باری دواب۔ Nehr Lower Bari Do Aab

نہر لوٸیر باری دواب۔ Nehr Lower Bari Do Aab

نہر لوٸیر باری دواب۔
رینالہ خورد LBDC
ایک عظیم الشان منصوبے یعنی پاکستان کے نہری نظام کا حصہ
انگریزوں سرکار کے آنے سے پہلے پنجاب کا بڑا علاقہ بنجر تھا۔کاشت کاری صرف دریاؤں کے آس پاس ہوتی تھی۔دریاؤں کے درمیان والے علاقوں کو بار کا علاقہ کہا جاتا تھا۔رینالہ خورد دریائے راوی اور دریائے بیاس کے درمیان آباد تھا۔بادشاہ اکبر نے ہی اس راہداری کا نام باری دوآب رکھا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز نے کیسے یہ اتنا بڑا اور منفرد نظام بنا دیا سب سے حیرت اور مزے کی بات کہ برطانیہ میں کوئی نہری نظام نہیں تھا۔انگریزوں نے یہاں آنے کے بعد ہی ریسرچ تھیوری اور فارمولے بنائے کہ بنجر زمینوں کو کیسے سیراب کرنا ہے۔


بریٹش سرکار نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد اپنی سلطنت کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے1886میں اس علاقے کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔سب سے پہلے سروے آف انڈیا کا محکمہ قائم کیا۔اس کی سفارشات پر نہری نظام بنانے کا پروگرام بنایا کہ کہاں کہاں نہریں بنانی ہیں۔ان کے ڈیزائن اور روٹ بنائے گئے۔سطح سمندر سے ان کا لیول چیک کیا گیا۔اریگیشن بہت بڑی انجیرنگ ہے اور اس نہر کی تعمیر اپنے وقت کا ایک بڑا انجینئرنگ کارنامہ تھا اور اس نے پنجاب میں زراعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بغیر مشینری اور انرجی لاکھوں ایکڑ زمین کو گریوٹی فلو کے زریعے سیراب کر دیا۔
لوئر باری دوآب کینال 1914 میں بلوکی بیراج سے چلائی گئی تھی۔اس نہر کا باقاعدہ افتتاح پنجاب کے گورنر سر ولیم میلکم ہیلی نے 12 اپریل 1912 کو کیا تھا۔(بلوکی بیراج خود 13-1911 میں تعمیر کیا گیا تھا)








اس نہر کے کنارے بند بنا کر بنائے گئے تھے۔عام طور پر نہروں کو کھود کے بنایا جاتا ہے۔اس کے لیے ڈونکی لیبر کی مدد لی گی۔بند بنانے کے لیے مٹی گدھوں کے دونوں سائیڈوں پر لاد کر لائی جاتی تھی۔اس نہر کہ لمبائی Length 201 km (125 miles) ہے۔
مرکزی نہر سے نکلنے والی ذیلی نہروں کو رائے بہادر سر گنگا رام نے پنجاب کے ضلع ساہیوال میں اپنی 50,000 ایکڑ سے بھی زیادہ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔رینالہ خورد میں نہر لوئر باری دوآب سے چھوٹی بڑی آٹھ نہریں نکلتی ہیں۔جو اب بھی یہاں کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔نہر کے پانی کے پریشر کو کم زیادہ کرنے کے لیے مینوئل گیٹ لگائے گئے۔









رائے بہادر سر گنگا رام نے رینالہ خورد کے قریب اس نہر پر پاور اسٹیشن بھی بنایا تھا۔پاور اسٹیشن میں پانچ ٹربائن جنریٹر تھے۔جو 1.1 میگا واٹ بجلی فراہم کرتے تھے۔سر گنگا رام کے اس عظیم کارنامے سے متعلق شاید بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔دنیا کی تاریخ میں پہلی بار پانی کو الیکٹرانک لفٹرز کے ذریعے پمپ کیا گیا۔لفٹ ہائیڈل الیکٹرک سسٹم سر گنگا رام نے ہی متعارف کروایا.جسے لفٹ اری گیشن سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔









اس نہر کے نیچے سے مختلف جگہ پر سائفن_Siphon جسے ہم سیفل کہتے ہیں۔سائفن_Siphon یہ وہ نہر ہوتی ہے۔جو دریا کے نیچے سے گزرتی ہے۔اب یہ سیفل جو کے پلاٹ اور ماڑی دین اصلاح اور موچی والا پل کے نزدیک موجود ہے۔جو تقریباً اب بند ہوچکی ہے۔ان ہی سیفل نے جب نہر ٹوٹی تھی تو پانی کا ایل بی ڈی سی کے نیچے سے گزر کر کر رینالہ کو بڑی تباہی سے بچایا تھا۔









نہر کی توسیع کا کام 1985 سے 88 اور 2014 سے 18 میں کیا گیا تھا۔ورلڈ بینک نے ہیڈ بلوکی سے ساہیوال تک نہر کے کناروں پر موٹرویز/ سڑکیں بنانے کے لیے فنڈز بھی جاری کیے تھے تاکہ زرعی زمین کو بچایا جائے۔کیوں کے جب زرعی علاقوں میں موٹر ویز / سڑکیں تعمیر ہوتی ہیں تو ان سڑکوں کے اردگرد کی قیمتی زرعی زمین کمرشل ہو کر تعمیرات کی نذر ہو جاتی ہیں۔









نوٹ۔۔

اگر منصوبہ ساز تھوڑی سی عقل استعمال کریں تو پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی نہروں پر ہر پانچ دس کلو میڑ کے بعد رینالہ میں موجود رائے بہادر سر کنگا رام ماڈل کی طرح پن بجلی گھر بنا کر عوام کو سستی و وافر بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے یا اس سے بڑے مناسب پروجیکٹ لگائے جائیں تو سیکڑوں ہزاروں میگا واٹ بجلی مفت پیدا کی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نہروں پر مختلف مقامات پر تفریحی سہولیات بھی فراہم کرنے سے عوام کو سستی تفریحی بھی مل سکتی ہے۔(اس کا ماڈل رینالہ میں موجود ٹاؤن پارک ہے) نہروں پر مختلف مقامات پر واٹر سپورٹس کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔نہروں پر سولر پینلز لگانے پر جس سے پانی بخارات بننے سے بچ جاتا ہے.پینلز بھی ٹھنڈے رہتے ہیں.جبکہ اضافی جگہ بھی نہیں لگتی.یہاں بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ایل بی ڈی سی پر سفری سہولتوں کے لیے سٹیمرز اور کشتیاں چلائی جائی جاسکتی ہیں۔اس سے مختلف شہروں کے درمیان سفر کم ہو سکتا ہے اور سڑکوں پر لوڈ بھی کم ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے سیاحت کو بھی فروغ ہوگا۔ 

Post a Comment

0 Comments