بوستان ریلوے اسٹیشن

بوستان ریلوے اسٹیشن

بوستان ریلوے اسٹیشن
بلوچستان کے ویران اور پراسرا سی دلفریبیت رکھنے والے ریلوے اسٹیشن کو دیکھتے ہی آپ شاید کوہ کاف کی کسی وادی کا گمان کریں گے






بوستان کا نام کاکڑ قبیلے کے ایک سردار اور افغان جنگِ آزادی کے ہیرو، بوستان کے نام سے موسوم ہے۔ بوستان کوئٹہ کو ژوب، ہرنائی اور چمن سے ملانے والی مختلف ریلوے لائنوں پر ایک دور میں اہم جنکشن ہوا کرتا تھا لیکن ریلوے کی تباہی کے ساتھ ساتھ بوستان بھی اجڑتا گیا اور اب یہاں برف پوش پہاڑوں کے






بوستان سے ژوب تک تقریبا 296 کلومیٹر لمبی یہ لائن دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں کان مہترزئی کا اسٹیشن آتا تھا جو سمندر کی سطح سے 7221 فٹ اونچائی پر ہے اور یہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کا سب سے اونچا اسٹیشن تھا۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے 499 اپ سہ پہر کو بوستان سے چلتی تھی اور رات بھر پہاڑوں اور دریاوں اور وادیوں کا سفر طے کرکے اگلی دوپہر سے ذرا پہلے فورٹ سنڈیمن پہنچتی تھی۔ کبھی کبھی برفانی طوفان آجاتے تو گاڑی راستے میں پھنس جاتی اور ٹرین کا سارا پانی جم جاتا۔ سردیوں میں ڈبے گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ صرف ریلوے کے افسر اپنے ڈبوں میں تیل کے چولہے جلاتے تھے۔






اس سال 1970 میں اس لائن پر اتنی زیادہ برف پڑی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت بوستان اور ژوب کے درمیان ہفتے میں صرف ایک مسافر گاڑی چلا کرتی تھی۔ برف باری کے دوران ایک ٹرین چلی جو کان مہترزئی کے قریب برف میں دھنس گئی۔لاکھ کوشش کے باوجود ٹرین نا نکلی بہت دن وہاں کھڑی برف میں دھنسی رہی۔
اور کٸ دن بعد برف ختم ہونے کے بعد چلی۔







مگر رفتہ رفتہ یہ یہسب یاد ماضی ہوا اور یہ چھوٹی سی مگر انجئینری کی شاہکار ریلوے لائن اجڑ کر رہ گئی۔
اس کے بعد 6.7 سال تک ریلوے ٹائم ٹیبل میں اس گاڑی کے اوقات شائع ہوتے رہے، اس کے بعد اس کی اتنی بھی اوقات نہیں رہی۔ یہ لائن ہندو باغ سے معدنیات لانے کے لئے ڈالی گئی تھی۔ بعد میں کسی کو اس سے دلچسپی نہ رہی.





اسٹیشن کی چھوٹی سی عمارت کے ایک طرف لڑکیوں کا سکول ہے، سامنے بوستان کا ریلوے اسپتال جبکہ عقب میں کچھ سر سبز کھیت ہیں

اور آج یہ علاقہ اجڑی داستان کی مثال لگتا ہے جیسے بے بس بے روزگار نوجوان پردیس میں مایوس بیٹ

Post a Comment

0 Comments