طوطا

طوطا

 طوطا

میاں مٹھو
طوطے عام پرندوں کی طرح درختوں کی ٹہنیوں پر گھونسلہ نہیں بناتے، یہ درختوں میں بنے سوراخوں کے اندر رہتے اور انڈے دیتے ہیں، یہ خود درختوں کے تنوں میں سوراخ نہیں کر سکتے بلکہ ان کے لیئے یہ کام
کَٹھ بَڑھَئی ۔کَٹھ پہوڑا ۔ ہُد ہُد اور ہُد ہُد نَسَل کے باقی پرندے اور قدرت کرتی ہے۔ ہدہد اپنی لمبی اور مضبوط چونچ کی مدد سے درختوں میں اپنے رہنے اور خوراک کے لیئے سوراخ بناتے ہیں اور ان میں رہتے اور انڈے دیتے ہیں۔
طوطے انہی ہد ہد کے چھوڑے ہوئے سوراخوں کو اپنے گھونسلے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔
ان کی رہائش کے لیئے سوراخوں کا دوسرا ذریعہ درختوں میں مختلف وجوہات کی کی بنا پر بن جانے والی گہری دراڑیں ہیں۔
طوطے عام حالات میں کبھی بھی اپنا گھونسلہ نہیں بدلتے ایک بار جو سوراخ منتخب کر لیا پھر اسی میں ہر دفعہ انڈے دیتے ہیں۔
طوطے سال میں ایک یا دو دفعہ انڈے دیتے ہیں ایک دفعہ میں انڈوں کی تعداد دو سے چار تک ہوتی ہے جن سے 22 سے 24 دنوں میں بچے نکل آتے ہیں۔
بچے تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد سوراخ سے نکل کر اڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد دو تین مہینوں تک یہ ماں کے ساتھ ہی رہتے اور زندگی گذارنے کی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ طوطے کا بچہ تین سال کی عمر میں جوان ہوتا ہے۔
سندھ کے مقامی عام طوطے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہو سکتی ہے۔
طوطے کا شمار حلال پرندوں میں نہیں ہوتا نہ ہی خوراک کے لیئے اسے شکار کیا جاتا ہے پھر بھی اسکے معدوم ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا بھی کچھ مشکل نہیں آئیے کوشش کرتے ہیں تفصیل سے سمجھنے کی۔
1990 سے پہلے تک طوطا بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا مگر 30 سال کے مختصر عرصے میں انکی آبادی کم ہو کر خاتمے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
طوطا جسے ہر گھر میں پیار سے میاں مٹھو بلایا جاتا تھا آج اس کی نسل کے خاتمے کا احساس ہوتا کسی میں نہیں دکھائی دیتا نہ عوام نہ متعلقہ حکومتی اداروں میں اور نا ہی ماحولیاتی تحفظ کے کھوکھلے دعوے کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز۔ بے حسی اور جہالت کی انتہا اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آجتک حکومتی ایوانوں میں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار پرندوں کے لیئے کوئی قانون بنا کر ان کی خریدوفروخت اور شکار پر پابندی لگانے کے بارے میں سوچا تک نہیں گیا۔
سب سے بڑی وجہ جو طوطوں سمیت باقی جنگلی حیات کی معدومیت کی وجہ بنی وہ ہے دریائے سندھ کے کناروں پر موجود قدرتی جنگلات کا مکمل خاتمہ۔۔
1992ع میں یہ جنگلات مکمل طور پر مختلف ڈاکوؤں کے گروہوں کا ٹھکانہ بن گئے تھے اور بات اتنی بڑھی کہ فوج طلب کرنا پڑی، انتہائی افسوسناک اور سر شرم سے جھکا دینے والی سچائی یہ ہے کہ یہ آپریشن اسقدر بے ڈھنگے پن اور بیدردی سے کیا گیا کہ ہزاروں ایکڑ جنگلات تباہ و برباد کر دیئے گئے جنگلی حیات اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور اسپر مستزاد یہ کہ نہ تب اور نہ ہی اب کسی بھی حکومت کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس ہوا ہے کہ اس نقصان عظیم کی کچھ تلافی کی جائے دوبارہ سے ان جنگلات کو اگانے کی مہم شروع کی جائے اور ان بچے کچھے کچھ جانوروں ، پرندوں اور رپٹائلز کی نسلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ انکے بغیر اپنے ان علاقوں پر چھائی اس منحوسیت اور خالی پن سے چھٹکارا ملے۔
دوسری وجہ عوام میں ماحولیاتی شعور نہ ہونا ہے ہر جگہ سے پرانے مقامی درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ بجائے نئے مقامی درخت لگانے کے بدیسی کونو کارپس وغیرہ جیسے درخت لگا دینا بھی طوطے کی نسل کشی کی ایک وجہ ہے۔ جو تھوڑے بہت بچے ہیں انہیں شکاری حضرات پکڑ کر بڑے شہروں کھلے عام مہنگے داموں بیچ رہے۔
جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے یہ قوم اور اس کے حکمران ابھی تک تو غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ سبھی کو چاہئے کہ اپنے گھر سے شروع کریں درخت لگائیں جانوروں کو تحفظ دیں شکار یا شوق کی خاطر انہیں مارنے کی حوصلہ شکنی کریں اپنے بچوں کو جنگلی حیات کے تحفظ اور ان کی اہمیت سے آگاہ کریں۔منقول

Post a Comment

0 Comments