سیالکوٹ

سیالکوٹ

سیالکوٹ
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قلعہ دفاعی نقطہ نظر سے تعمیر کروایااور اس کا نام اپنے نام پر سل کوٹ رکھا۔ جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا۔









سیالکوٹ شہر کا زکر یونانی تاریخ میں ملتا ہے۔ یاد رہے کہ سکندراعظم نے 323 قبل مسیح میں شمالی پنجاب پر حملہ کیا تھا ۔ یونانی مورخین کے مطابق اس وقت اس شہر کی آبادی 80000 نفوس پر مشتمل تھی۔جنہیں سکندراعظم نے اس خدشے پہ قتل کر ڈالا کہ یہ دوسرے شہروں کو فتح کرنے میں مزاحمت بن سکتے ہیں ۔









اس کے بعد 300 ق م میں دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ انڈو یونانی دور میں ایتھوڈیمیڈ خاندان کے مینندراول نامی راجہ نے یہاں کا تخت سنبھالا ۔ مینندر نے قدیم شہر کو دوبارہ تعمیر کرایا۔اس نے 160ق م سے 135 قم تک یہاں حکومت کی ۔دوبارہ تعمیر شدہ شہر کو پرانے شہر سے ہٹ کر تعمیر کیا گیا تھا کیونکہ تباہ شدہ شہر کی جگہ پر دوبارہ شہر تعمیر کرنا ایک ناروا فعل سمجھا جاتا تھا۔









مینندر کی حکمرانی کے تحت ، اس شہر نے ریشم کی وجہ سے مشہور تجارتی مرکز کے طور پر بہت ترقی کی۔ مینندر نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا اور اس کے بعد یہ شہر بدھ مت کا اہم مرکز بن گیا ۔ قدیم یونانی کتابوں میں اس نئے شہر کا نام سیگالہ کے نام سے ملتا ہے ۔جو انڈو یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں جن میں یونانی سکے اور اسٹوپے شامل ہیں۔ ضلع کی مختلف جگہ پہ کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔









ہن گجر
دوسری صدی عیسوی میں راجہ سالباہن یہاں کا حکمران تھا ۔ اس کا تعلق گجر قوم کے ہن قبیلے سے تھا ۔ راجہ سالباہن نے ہی یہاں وہ مشہور تاریخی قلعہ تعمیر کرایا جسے قلعہ سیالکوٹ کہا جاتاہے ۔ اس کے بعد راجہ رسالو سیالکوٹ کے تخت پر بیٹھا ۔ رسالو گجر کے نام سے آج بھی ایک مقام سیالکوٹ میں موجود ہے
اس کے بعد یہ علاقہ کشان گجر سلطنت کا حصہ بن گیا ۔جو طویل عرصہ تک کشان سلطنت کا حصہ رہا ۔









460 ء کے آس پاس، وسط ایشیاء سے وائٹ ہن گجر قبیلہ کی یلغار ہوئی جنہیں افتالی بھی کہا جاتا ہے
یاد رہے کہ افتالی آج بھی گجر قوم کی ایک مشہور گوت ہے ۔ انہوں نے ٹیکسلہ کے حکمران خاندان کو بھی سیالکوٹ میں پناہ لینے پر مجبور کیا مگر بعد ازاں ہفتالیوں نے سیالکوٹ کو بھی فتح کر لیا ۔ 515ء میں سیالکوٹ افتالی حکمران تورامان کا دارالحکومت بن گیا ۔ تورامان ہن کا گجر تاریخ میں بڑا نام ہے ۔ تورامان کے بیٹے مہیر کل ہون کے دور میں ہنوں کی سلطنت اپنے عروج کو پہنچ گئی ۔









چینی سیاح ہیون سانگ نے اس شہر کا دورہ 633ء میں کیا ، اس نے اس شہر کا نام شی کیو-لو کے نام سے درج کیا۔ ہیوان سانگ نے بھی لکھا ہے کہ سکندراعظم نے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا اور نیا شہر پرانی جگہ سے دو سے اڑھائی میل کے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ۔اس نے لکھا اس وقت سیالکوٹ کو پنجاب کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔









643ء میں جموں کے راجہ نے اس شہر پر حملہ کیا اور اس کے خاندان نے یہاں محمود غزنوی کی آمد تک یہاں حکومت کی ۔
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سنسکرت کے مشہور مورخ اور تاریخ دان پنڈت کلہن نے راج ترنگنی کے نام سے تاریخ مرتب کی اور اس میں کابل اور شمالی پنجاب کے راجہ جے پال کھٹانہ کے خاندان کو گجر لکھا ۔









تقریباً 1000ء کے قریب سیالکوٹ کی اہمیت کم ہونے لگی کیونکہ غزنوی حکمرانوں نے لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا تھا ۔ لیکن بارہویں صدی کے اوائل میں غزنوی سلطنت کے زوال کے بعد کٹھانہ گجروں کی کابل شاہی سلطنت کا دارالحکومت لاہور سے سیالکوٹ منتقل کردیا گیا۔ اس کے بعد شہاب الدین غوری نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی-









1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ،”رچنا بار سرکار” کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔ پھرشاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکمران رہا۔ شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سیالکوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا
پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میں‌چلتے رہے۔









سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے۔ 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سیالکوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیاگیا ۔
1857ء میں جب پورے ہندوستان کی طرح سیالکوٹ کے لوگوں نے بھی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا تو انگریزوں نے یہاں مارشل لا نافذ کر دیا ۔ لیکن جب جہلم ، راولپنڈی اور آس پاس مسلم فوجیوں نے مسلح بغاوت کا آغاز کیا تو تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے








یہ شہر جو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے 30 لاکھ سے زیادہ آبادی والا یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر دور ہے جبکہ مقبوضہ جموں سے صرف 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ضلع سیالکوٹ چارتحصیلوں پر مشتمل ہے:
تحصیل سیالکوٹ
تحصیل ڈسکہ
تحصیل پسرور
تحصیل سمبڑیال

موجودہ سیالکوٹ نا صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں اپنی ہی اہمیت کا حامل ہے اور ناصرف کھیلوں کے سامان میں اپنی مثال ہے بلکہ اس اقبال کے شہر کا اپنا ایٸر پورٹ بھی ہے تیزی سے ترقی کرتا یہ شہر پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتا ہے اور ساری دنیا جہاں کھیلوں میں بلکہ جن کھیلوں میں پاکستان کا نام بھی نہیں وہاں سیالکوٹ کو ہمیشہ سب سے اوپر جانا جاتا ہے 

Post a Comment

0 Comments