شاہ عبداللطیف بھٹائی

شاہ عبداللطیف بھٹائی

شاہ عبداللطیف بھٹائی
بھٹ شاہ حیدر آباد سندھ
مقبرہ سندھی فن تعمیر کا شاہکار جس کے اندر باہر کاشی کاری کے نہایت دید زیب ڈزاٸین ہیں دیواریں ہوں دروازے کھڑکیاں یا چھت کمال کی کاریگری کی گٸ ہے بہترین کاریگروں کی کاری گری کا اعلی نمونہ اپنی شان خود بیان کرتا ہے اور تعمیر کروانے والے کی دین اوربزرگان دین سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے





شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ 1101ھ میں ہالا میں پیدا ہوئے آپ کے والد سیّد حبیب ہالا کا شمار ہالا علاقے کی برگذیدہ ہستیوں میں ہوتا تھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے آباؤاجداد سادات کے ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔






امیر تیمور کے دور میں ہرات کے ایک بزرگ سیّد میر علی گزرے ہیں جو بہت اعلی ظرف خوبیوں کے مالک تھے۔ امیرتیمور 801ھ میں ہرات آیا تو سیّد صاحب نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر تواضع کی۔ امیر تیمور اس حسن سلوک سے بے حد متاثر ہوا۔ سیّد صاحب کے بیٹے ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیوستان کا حاکم مقرر کیا۔ ابوبکر سیّد میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ لے آئے۔ سیّد حیدر شاہ مستقل طور پر سندھ آگئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان بنے۔ شاہ محمد نے آپ کی خدمت راہ ورسم پُرخلوص محبت میں تبدیل ہو گئی۔ سیّد حیدر شاہ کی شادی شاہ محمد کی بیٹی سے ہوئی۔ آپؒ کو اولاد میں بیٹا ہوا، جس کا نام میر علی رکھا گیا۔ میرعلی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحبِ کمال بزرگ پیدا ہوئے۔ ان بزرگوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ شاہ کریم، سیّد ہاشم اور سیّد بلال قابلِ ذکر ہیں۔






شاہ لطیف کی ولادت کے کچھ دنوں کے بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ آپ کو پانچ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں علم کے لیے بھیجا گیا۔ روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کے سوا کچھ اور پڑھنے سے انکار کر دیا۔ شاہ صاحب کو اپنی زبان کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی خاص دسترس حاصل تھی۔ ہو سکتا ہے کہ تحصیلِ علم کے لیے شاہ صاحب نے کسی اُستاد سے زیادہ مدد نہ لی ہو، بلکہ طبع سلیم اور جذبہئ شوق کی بنا پر ظاہری اور باطنی علوم حاصل کیے ہوں۔





جس عرصے میں شاہ حبیب کوٹری میں آکر آباد ہوئے۔ اس وقت کوٹری میں مرزا مغل بیگ ارغون کا خاندان سکونت پذیر تھا۔ شاہ حبیب کی پاکبازی اور بزرگی نے مغل بیگ کو بہت متاثر کیا۔ مغل بیگ اپنے پورے خاندان کے ساتھ شاہ حبیب کے مرید ہو گئے۔ ہر قسم کی بیماری میں شاہ صاحب سے دُعائے صحت کرواتے۔ ایک مرتبہ مرزا مغل بیگ کی نوجوان بیٹی بیمار ہوئی۔ شاہ صاحب کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ دُعائے صحت کے لیے انہوں نے اپنے نوعمر بیٹے کو ملازم کے ساتھ روانہ کیا۔ مرزا پیر و مرشد کے فرزند کو زنان خانے میں لے گیا۔ نوجوان شاہ لطیف نے جب ایک حسین وجمیل دوشیزہ کو اپنے سامنے دیکھا تو دونوں کے دلوں میں محبت کی آگ اُٹھی۔ اسی وجہ سے مرزا کے شکوک وشبہات تشویش ناک صورت اختیار کر گئے اور وہ شاہ حبیب سے ترکِ تعلق پر مجبور ہو گیا۔ اس پر شاہ حبیب کوٹری سے روانہ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ شاہ صاحب کے جانے کے بعد مرزا مغل بیگ کی حویلی پر حملہ ہوا۔ حملے میں مرزا مغل بیگ کے خاندان میں جتنے بھی مرد تھے، سب قتل کر دیئے گئے۔ یہ واقعہ 1125ھ کا ہے۔ ایک نوعمر لڑکا اور عورتیں باقی رہ گئیں۔ انہیں وہم ہوا کہ یہ تباہی سیّدوں کی ناراضی اور بددُعا سے ہوئی ہے۔ چنانچہ باقی لوگوں نے شاہ حبیب کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگی اور ساتھ ہی مرزا مغل بیگ کی صاحبزادی کو شاہ لطیف کے نکاح میں دینے کا اقرار کیا۔





شاہ لطیف نے ازدواجی زندگی میں منسلک ہونے کے بعد کوٹری سے چار پانچ کوس دُور ایک پُرفضا لیکن غیرآباد جگہ کو اپنا مسکن بنایا۔ اسی پُرفضا جگہ کو اب تک بھٹ شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جگہ اُس زمانے میں چند اُونچے اُونچے ٹیلوں پر مشتمل تھی۔ شاہ عبداللطیفؒ ابھی بھٹ کو آباد ہی کر رہے تھے کہ والد بزرگوار کی علالت کی خبر پہنچی۔ شاہ حبیب کا انتقال 1731ھ میں ہوا۔ ان کی تجہیز وتکفین بھی بھٹ شاہ میں ہوئی اور اس کے بعد شاہ کی مرضی کے مطابق خاندان کے باقی ماندہ افراد بھی مستقل طور پر بھٹ میں آکر آباد ہوئے۔





شاہ عبداللطیف ؒعبادت اور ریاضت میں منہمک ہو گئے۔ آپ ؒ کا زیادہ وقت تنہائی میں گزرتا۔ غوروخوض کرنے کی عادات اوائل عمری سے تھی۔ شعور کی پختگی اور بے شمار دُنیاوی تجربات نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ شعروسخن اور موسیقی سے جو تعلق تھا، اس نے عمر کے ساتھ ساتھ ترقی اور قبول حاصل کیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے اپنے کلام میں مختلف پشتوں، معاشرتی عوامل، تصوف اور ہر قسم کے انسانی موضوع پر قلم اُٹھایا۔ شاہ صاحب کے کلام پر لکھنے کے لیے ایک الگ کتاب درکار ہے۔ شاہ عبدا للطیف بھٹائیؒ تصوف پسند ہی نہیں بلکہ تصوف پرست تھے۔ ان کی تصوف پرستی کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ پورے کلام میں ان گنت رنگینیوں کے باوصف، تصوف کا بنیادی نصب العین ہر جگہ موجود ہے۔ یہ کلام حمد وثناء اور نعتیہ مضامین کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔





شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے 14ماہ صفر1165 ھجری کو اس دُنیا سے پردہ کیا۔ 1167ھ میں غلام شاہ کلہوڑا نے اپنے والد نور محمد کلہوڑا کے حکم کے مطابق آپؒ کے مزار پر دیدہ زیب مقبرہ تیار کرایا۔ یہ دربار آج بھی بزرگان دین کی محبت اور روحانی سکون حاصل کرنے والوں سے بھری رہتی ہے پورے پاکستان سے لوگ یہاں ہیں اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ 


Post a Comment

0 Comments