مکھڈ شریف

مکھڈ شریف

مکھڈ شریف
کیا آپ نے صدیوں پرانا زندہ شہر دیکھا ہے۔؟
تحصیل جھنڈ ضلع اٹک کا یہ شہر صدیوں پرانا ہے جو قبل از مسیح بھی آباد تھا
ڈھائی ہزار سالہ پرانا قصبہ مکھڈ شریف ، بدھ مت ۔ سکھ ازم ۔ ہندومت۔ اور اسلام چار تہذیبوں کا گہوارہ تاریخی ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا خوبصورت قصبہ مکھڈ شریف جو قبل از مسیح بھی آباد تھا










مکھڈ کے بارے تاریخ میں لکھا ہے کے یہ بستی 920 قبل مسیح میں آباد تھی اور یہاں شاندار زندگی رواں دواں تھی جب 333 قبل مسیح میں بادشا دارا نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا










اور پھر 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے جب راجہ پورس سے جنگ کی تو اس کے لشکر کے کچھ لوگ بھاگ کر مکھڈ آگئے تھے
پھر 317 میں نوشیروان عادل کے دور میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا اور ہندومت کا مرکز تھا 1027 میں جب محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پہ حملہ کیا تو وہ مکھڈ سے گزر کر گیا 1192 میں شہاب الدین غوری کے بعد مکھڈ حاکم لاہور قطب دیں ایبک کے زیر انتظام آ گیا 1520 میں جب ابراھیم لودھی حمکران بنا تو مکھڈ حاکم ملتان کے زیر نگین آگیا 1580 میں جب اکبر نے دیں الہی ایجاد کیا تو اس کے خلاف مہم میں مکھڈ کے حاجی احمد پراچہ پیش پیش تھے 1650 میں عراق کے دارلحکومت بغداد سے ایک صوفی بزرگ ایران بلوچستان بنوں سے ہوتے ہوئے مکھد آئے اس وقت مکھڈ ہندومت کا مرکز تھا انہوں نے یہاں اسلام کی روشنی پھیلائی اور یہ صوفی بزرگ نوری بادشاہ کے نام سے پکارے جانے لگے جن کا مزار شریف آج اسے قصبہ میں ہے۔










1857 جب مغل سلطنت کا سورج غروب ہوا تو مکھڈ انگریز سرکار کے زیر تسلط آ گیا مکھڈ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے اک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا










انگریز دور میں میانوالی حیدر آباد کراچی سکھر سے تجارتی سامان مکھڈ آتا اور یہاں سے تلاگنگ راولپنڈی چکوال لے جایا جاتا 6 مارچ 1894 کو انجرا ریلوے اسٹیشن کا افتتاح ہوا اور انجرا سے مکھڈ کچی سڑک بنائی گئی 1922 میں جنگ عظیم اول کے بعد انگریزوں نے اپنا ریکروٹنگ رجسٹر دیکھا تو جنگ عظیم کے دوران انگریز فوج میں سب سے زیادہ بھرتی پیر آف مکھڈ نے کرائی انکے اس کام کے بدلے انہیں ضلع لاہور و وہاڑی میں 25000 کنال زمین بطور انعام دی گئی قصبہ مکھڈ ایک ٹیلے پہ آباد ہے قدیم شہر ایک قلعہ نما تھا جسکے مختلف دروازے تھے آج بھی اسکے آثار موجود ہیں مکھڈ کی گلیاں و مکان قدیم دور سے پتھروں سے بنائے گئے دریا کے کنارے ہونے سے لکڑی کا فراوانی سے استعمال کیا گیا جو اس قصبہ میں جگہ جگہ نظر آتا ہے محارت اور عمدہ کاریگری سے کیا گیا کام نہایت شاندار ہے













یاد رہے ۔ کہ پورے ملک میں اپنی پہچان کا حامل مکھڈی حلوہ۔ اسی قصبہ کی ایجاد ہے جسے ہر کوٸی پسند کرتا ہے اور زاٸقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔










آج یہ قصبہ بھی ترقی کی طرف گامزن ہے اور یہاں تک رساٸی بہت آسان ہو گٸ ہے لوگ بھی بہت محبت والے ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments