ایریگیشن ریسٹ ہاٶس رینالہ

ایریگیشن ریسٹ ہاٶس رینالہ

ایریگیشن ریسٹ ہاٶس رینالہ
کھوکھری کوٹھی کے نام سے مشہور
واں رادھا رام سے تقریباً 7 کلومیٹر چوچک روڈ پر اڈا کھوکھر پل پر موجود ایریگیشن ریسٹ ہاؤس جسے مقامی لوگ "کھوکھر کوٹھی"کے نام سے پکارتے ہیں،نہایت ہی سر سبز،تاریخی اور پر سکون جگہ بنگلہ LBDC کینال کے ساتھ واقع ہے۔شاید یہ بنگلہ آخری مغل بادشاہ کی شکست کے بعد انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد انگریز آفیسروں کے لیے تعمیر کیے تھے۔جنہوں نے دینا کا سب سے بہترین نہری نظام بنایا تھا۔۔ بنگلہ کے اندر آنے کے لیے آپکو تھوڑا سا نیچے اترنا پڑتا ہے۔صحن کے دائیں جانب قدیم مسجد کے آثار بھی ہیں۔جبکہ بائیں جانب صاف پانی کا کنواں موجود ہے۔انگریز دور کے بنے بنگلے میں ایک ریسٹ ہاؤس،اصطبل،باورچی خانہ،سرونٹ کواٹر اور کنواں تھا۔







جبکہ بیچ وبیچ جیسے وضو کا ایک بڑا تالاب بھی تھا،یا کوئی تالاب تھا۔
صدیاں گزر جانے کے باوجود بنگلہ کی خوبصورتی میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔
ایک دہائی پہلے تک سڑک سے گزرنے والا ہر مسافر گزرتے وقت اک لمحے کے لیے یہاں گہری درختوں کی چھاؤں اور میٹھا پانی پینے کے لیے ضرور رکتے تھے۔اس کے علاوہ ابھی بھی عید کے دنوں میں کئی لوگ اس پرسکون جگہ کا رخ کرتے ہیں،یہاں "پکنک" مناتے ہیں اور کچھ وقت کے لیے اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔







بنگلے کی تعمیر پہ اگر نظر دوڑائیں تو دو ادوار سامنے آتے ہیں۔ایک دور آزادی سے پہلے کا ہے جب انگریز آفیسر یہاں آ کر رکتے تھے۔انگریزی دور کا بنا ہوا بنگلہ کافی پائیدار خوبصورت اور دلکش تھا۔مگر اب حالات سے زیادہ اربابِ اختیار کی ستم ظریفی کا داستانِ وحشت ہے۔ٹھنڈے ہوا دار کمرے جن میں ہوا کا گزر ہر وقت رہتا ہے۔کمال کی خوبصورت بلڈنگ جو چونا،مٹی،گارے،کوئلہ چھوٹی بڑی ٹائل سے بنی تھی۔ریسٹ ہاؤس،اصطبل اور باورچی خانے فن تعمیرات کا شاہکار نمونہ تھی۔پہلی نظر بلڈنگ پر پڑتے ہی اس دور کے کاریگروں کو داد دیے بغیر آپ رہ ہی نہیں سکتے۔اپنے خوبصورت افن تعمیر کے باعث یہ بلڈنگ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔اس کا بیشتر کاریگری کے نشانات ابھی تک موجود ہے۔عمارت دیکھ کر لگتا ہی نہیں یہ ایک صدی سے بھی پرانی ہے۔سب سے کمال بات بجلی نہ ہونے کے باوجود فواروں کا چلنا۔اس کے علاؤہ پوری بلڈنگ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی۔اردگرد مصنوعی جنگل جس میں کیکر،ٹالی کے لاتعداد درخت تھے۔







اب بنگلہ بھوت بنگلہ میں تبدیل ہوگیا اور شاہکار عمارت ایریگیشن افسران کی عدم توجہ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار ہو گئی کئی سارے حصے کھنڈرات کی شکل اختیار کر گئے ہے۔نہ درختوں کے نام نشان ہیں نہ تالاب کے پانی کا کچھ پتہ۔نہ باورچی خانہ کی ٹائل اور اینٹوں کا کوئی سراغ ہیں۔







ہم آنے والی نسلوں کو معدوم آثار قدیمہ بھی دے کے نہیں جا رہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا محکمہ آثار قدیمہ،ایریگیشن اور مقامی لوگوں کو اس کوٹھی کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔اس سے سیاحت کو فروغ ملتا۔آنے والی نسلوں کو تاریخ کا پتہ چلتا۔آنے والی نسل میرے جیسوں سے قصہ کہانی سننے کی بجائے خود اپنے آنکھوں سے اس تاریخی ورثے کو دیکھتی۔











ضرورت اس امر کی ہے ارباب اختیار خواب خرگوش سے جاگیں اور مقامی لوگ ان کو جگانے والے بنیں تاکہ اس ورثہ کی حفاظت کی جاسکے اور اسے بہترین تفریح گاہ میں تبدیل کیا جاۓ جو اس علاقے کی ترقی کا باعث بھی ہوگی ۔

ایک ہی بندہ ہے وہاں جو یہ کہتا ہے رینالہ میرا وطن ہے میرا عشق ہے کاش سب ایسے ہوجاٸیں اپنے گھر کو جنت نما بنانے میں پوری قوت لگا دیں 

Post a Comment

0 Comments