کوٸٹہ

کوٸٹہ

کوٸٹہ
کوئٹہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر ہے۔ کوئٹہ بلوچی لفظ کوئتہ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنیٰ 'وادی' کے ہیں۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ضلع کوئٹہ کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 2,275,699 تھی،







اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے







کوئٹہ شال کوٹ ایک پرانا شہر ہے جس کے نام کا لغوی معنیٰ 'قلعہ' کے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے پڑا کہ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی قلعہ ہے۔ اس کے اطراف میں جو پہاڑ ہیں ان کے نام چلتن، زرغون اور مہردار ہیں۔ سب پہاڑ بنیادی طور پر خشک ہیں۔ کوئٹہ قدیم شہر ہے جس کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے۔








اس وقت یہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد ایک خیال کے مطابق کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلیمان سے آکر کوئٹی میں بڑی تعداد میں سکونت اختیار کی۔ 1543ء میں مغل بادشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا جو دو سال تک یہیں رہا۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔








1595ء میں دوبارہ بادشاہ اکبر نے کوئٹہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ 1730ء کے بعد یہ ریاست قلات میں شامل رہا۔ 1828ء میں ایک یورپی مسافر کے مطابق کوئٹہ کے اردگرد مٹی کی ایک بڑی دیوار تھی جس نے اسے ایک قلعہ کی شکل دے دی تھی اور اس میں تقریباً تین سو گھر آباد تھے۔ 1828ء اور اس کے بعد کوئٹہ کا جائزہ لینے کے لیے کئی انگریز مسافر کوئٹہ آئے جن کا مقصد انگریزوں کو معلومات مہیا کرنا تھا۔ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ گروو سنڈیمن کو یہاں کا نمائندۂ سیاسی مقرر کیا گیا۔ اس دوران بلوچ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈا میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔








31 مئی 1935ء کو کوئٹہ میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس نے پورے شہر کو آناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور ایک اندازہ کے مطابق 40،000 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس قیامت خیز زلزلہ نے کوئٹہ کو بالکل تباہ کر دیا اور شہر میں کوئی عمارت نہ چھوڑی۔ یہ زلزلہ رچرڈ کے معیار کے مطابق 7.1 کی شدت کا تھا۔ اس کا شمار جنوبی ایشیا کی تاریخ کے چار بڑے ترین زلزلوں میں کیا جاتا ہے جس کے بغیر کوئٹہ کی تاریخ نامکمل ہے۔ اس زلزلہ کے بعد کوئٹہ کی تعمیرِ نو ہوئی مگر تمام عمارات یک منزلہ تھیں۔ اس کے علاوہ برطانوی افواج نے چونکہ اپنے فوجی اڈے افغانستان کی سرحد کے ساتھ بنا لیے تھے اس لیے انہوں نے کوئٹہ کی تعمیرِ نو میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ لیکن کوئٹہ افغانستان اور ایران کے تجارتی راستے پر تھا اس لیے آہستہ آہستہ اس نے اپنی حیثیت دوبارہ مستحکم کر لی۔ اس کی تجارت افغانستان کے ساتھ چمن کے راستے اور ایران کے ساتھ نوشکی، دالبندین اور تفتان کے راستے دوبارہ شروع ہو گئی۔








1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد کوئٹہ بلوچ علاقے کا صدر مقام تھا۔ بعد میں جب بلوچستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یہ اپنی پھلوں کی تجارت اور کرومائیٹ کی کانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سطح سمندر سے 5000 فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے پرفضا مقام ہے اور سیاحت نے بڑی ترقی کی ہے۔ خصوصاً زیارت، جو کوئٹہ سے قریب ہے، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ مقام تھا۔ ۔ 1979ء کے افغان مسئلہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد نے شہر کی شکل بدل دی اور آبادی میں اس اضافہ کی وجہ سے کوئٹہ بہت پھیل گیا ہے اور شہر کے اردگرد کافی نئی آبادیوں نے جنم لیا ہے۔ یہ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی چھ لاکھ کے قریب ہو چکی ہے (اس میں افغان مہاجرین شامل نہیں)۔ کوئٹہ کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے 1600 کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے شہر زاھدان سے ایک ریلوے لائن ملاتی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کے درمیان ایک سڑک براستہ سبی، جیکب آباد و سکھر پہلے موجود تھی۔ ایک نئی سڑک کوئٹہ کو براستہ مستونگ، قلات، خضدار اور لسبیلہ ملاتی ہے۔ بہاولپور اور ملتان کے لیے بھی براستہ سڑک اچھے راستے موجود ہیں۔ کوئٹہ کی اہمیت پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے بعد بڑھ گئی ہے










۔ یہ کراچی کے شمال مشرق میں اور اسلام آباد کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ بذریعہ ریل اس کا کراچی سے فاصلہ 863 کلومیٹر اور لاہور سے 1170 کلومیٹر ہے صرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی پشین واقع ہے جو نہائت زرخیز ہے اور اپنے پھلوں اور کاریزات کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہنہ جھیل کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔










یہاں گرمیوں میں شدید گرمی (46 ڈگری سینٹی گریڈ تک) اور سردیوں میں میں شدید سردی (-25 ڈگری سینٹی گریڈ تک) پڑتی پے۔ موسم سرما میء کے اختتام سے ستمبر کی ابتدا تک جاری رہتا ہے۔یہاں عام طور پر سردیوں میں درجہ حرارت منفی میں چلا جاتا ہے مگر 18 جنوری 1970 میں اس شہر نے اپنی تاریخ کی سب سے شدید ترین سردی دیکھی اور یہاں درجہ حرارت منفی 18.3 ڈگری کو چُھو گیا۔ 

Post a Comment

0 Comments