اشوکا

اشوکا

اشوکا
شہباز گڑھی مردان اور مانسہرہ
انسانی تاریخ میں بہت سے حکمراں گزرے ہیں جنہوں نے بڑے کروفر سے حکومت کی ہے لیکن ان میں، بقول ایچ جی ویلز، ہندوستان کے حکمراں اشوک کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ وہ ایک جابر اور توسیع پسند راجہ کے طور پر اقتدار میں آیا لیکن کالِنگا کی لڑائی کی ہولنا کیوں نے اسکی سوچ میں ایک انقلاب بپا کردیا اور اس نے آئندہ جنگ، ظلم اور تشدد سے توبہ کرلی اور عدم تشدد کا پجاری بن گیا۔




اشوک نے ایک اچھے انسان اور ایک اچھی حکومت کے لئے کوئی چودہ اصول مرتب کیے تھے جنہیں پتھر کے ستونوں اور بڑی بڑی چٹانوں پر کندہ کرا کر اپنی سلطنت کے مختلف علاقوں میں نصب کرادیا تھا۔ یہ اصول ہندوستان، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش میں مجموعی طور پر کوئی تیس مقامات پر نصب ملے ہیں۔پاکستان میں خیبر پختون خواہ کے دو اضلاع مردان اور مانسہرہ میں یہ نکاتات موجود ہیں۔




اشوک سلطنت موریہ کا تیسرا شہنشاہ گزرا۔ وہ سلطنت مگدھ جنوبی بہار۔ بھارت کا راجا چندر گپت موریا کا پوتا ہے۔ اشوک 272 ق۔ م میں گدّی پر بیٹھا۔ اُس نے چندر گُپت سے بھی زیادہ شہرت پائی۔ اُس کو اکثر اشوکِ اعظم کہا جاتا ہے کیونکہ اپنے عہد کا سب سے بڑا اور طاقتور راجہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اشوک نے اپنے ایک بھائی کو چھوڑ کر 99 بھائیوں کو قتل کر دیا۔ جوانی میں اشوک لڑائی کا بڑا مرد تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کلِنگ (اُڑیسا) کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامِل کر لوں گا۔ چنانچہ تین سال لڑا اور کلنگ کو فتح کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہزاروں لاکھوں کا خون ہوتا ہوا دیکھ کر اشوک کے دل میں ایسا رحم آیا کہ یک بیک طبیعت بالکل بدل گئی کہنے لگا کہ اب میں بدھ کی تعلیم پر چلوں گا اور کبھی کسی سے لڑائی نہ کروں گا۔ بدھ مت کو اپنے تمام راج کا مذہب قرار دیا اور اپنا نام پر یاد رشی یا حبیب خدا رکھا۔ اس کا ایک بیٹا بھکشو اور بیٹی بھکشنی ہو گئی۔ اس نے دونوں کو سیلون )سنگلدیب( بھیجا کہ وہاں بدھ مت کی تبلیغ کریں۔ اب دوسری مجلس کو منعقد ہوئے سوا سو سال سے زیادہ ہو گئے تھے اور بدھ مت میں کئی قسم کی تبدیلیاں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تحقیق کے لیے 242 ؁ ق۔ م میں اشوک نے اس مذہب کے ایک ہزار بزرگوں اور عالموں کی تیسری بڑی مجلس منعقد کی۔ مراد یہ تھی کہ بدھ مت کی تعلیم بعد کی بدعتوں اور آمیزشوں سے پاک ہو کر اپنے بانی کی اصلی تعلیم کے مطابق ہو جائے۔ پاٹلی پتر میں یہ مجلس منعقد ہوئی۔ بدھ مت کی تمام حکایتیں اور روایتیں پالی زبانی میں لکھ لی گئیں۔ کچھ اوپر دو ہزار برس سے بدھ مت کے جو شاستر جنوبی ایشیا میں جاری ہیں۔ وہ اسی مجلس کے مرتب کیے ہوئے ہیں، بدھ دھرم کی تبلیغ کے لیے اشوک نے کشمیر، قندھار، تبت، برہما، دکن اور سیلون (سنگلدیپ) میں بھکشو روانہ کیے۔
اشوک نے 14 احکام جاری کیے اور جابجا سارے ہند میں پتھر کی لاٹھوں پر کندہ کرا دئیے۔ ان میں سے کئی آج تک موجود ہیں۔ ایک الہ آباد میں ہے، ایک گجرات کے گرنار پربت پر ہے۔ ان احکام میں بدھ کی تعلیم کی بڑی بڑی باتیں سب آ جاتی ہیں۔ مثلاً رحم کرو، نیک بنو، اپنے دل کو پاک کرو، خیرات دو۔ ایک کتبے کی عبارت میں لکھا ہوا ہے کہ اشوک نے کلنگ دیس فتح کیا اور پانچ یونانی بادشاہوں سے صلح کی۔ ان میں سے تین مصر یونان خاص اور شام کے بادشاہ تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے عہد میں اشوک کیسا مشہور اور ذی شان راجہ تھا۔







332 قبل مسیح میں اشوک نے وفات پائی۔ اس کے چالیس سال کے بعد موریا خاندان کا بھی خاتمہ ہوا۔ موریا کے بعد دو خاندان مگدھ میں ایسے ہوئے جن کے ناموں کے سوا اور کچھ حالات معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ اشوک سے دو سو برس بعد مگدھ کا راج اندھر خاندان کے ہاتھ آیا۔
نہایت رحم دل بادشاہ تھا۔ غریبوں، یتیموں اور بیوہ عورتوں کی پرورش کرتا تھا۔ بہت سے کنویں کھدوائے۔ دھرم شالا ئیں تعمیر کرائیں۔ سڑکوں پر سایہ دار درخت لگوائے اور بے شمار جگہوں پر پانی کا بندوبست کیا۔ مذہبی احکام پتھروں، ستونوں اور چٹانوں پر کندہ کرائے۔ ان میں سے تقریباً چالیس کتبے اور لاٹھیں دہلی، الہ آباد مردان اور مانسہرا میں دریافت ہوچکی ہیں۔ اسے عمارتیں بنوانے اور نئی بستیاں بسانے کا بہت شوق تھا۔ پاٹلی پتر میں ایک عالیشان محل بنوایا۔ وادی کشمیر میں سری نگر کی بنیاد رکھی اور نیپال میں بھی ایک شہر دیوتین تعمیر کرایا۔





مانسہرہ اور مردان کے قریب شہباز گڑھی کی یہ چٹانیں ملی ہیں۔ جہاں تک شہباز گڑھی کی چٹانوں کا تعلق ہے وہ تو ماہرین کے مطابق پڑھی جاسکتی ہیں لیکن مانسہرہ میں ان پر کندہ عبارت متعلقہ حکام کی عدم توجہی کی بناء پر بڑی حد تک مندمل ہوگئی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے پچیس تیس سال پہلے یہ بڑی حد تک واضح تھیں لیکن اب بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہیں۔




اگرچہ محکمۂ آثار قدیمہ نے ان چٹانوں پر سائبان ڈال دیے ہیں لیکن ان کی عبارت کو ابھارنے کی بھی کوئی سبیل کرنی چاہیئے تاکہ تاریخ اور آثار قدیمہ کے طلبہ بھی اپنی تحقیق اور تفریح کے لئے اسے استعمال کرسکیں۔مانسہرہ میں تاریخی چٹانوں پر کندہ عبارت مٹتی جا رہی ہے اور اسکی حفاظت کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا تو پاکستان ایک قیمتی تاریخی Pak Virsa پاک ورثہ سے محروم ہو جائے گا۔






ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی اور دیگر تاریخی جگہوں کی حفاظت کی جاۓ حکومت کے ساتھ مقامی لوگ اور سیاح بھی اپنی زمہ داری کو سمجھیں 

Post a Comment

0 Comments