جنڈیال مندر Jandial Temple

جنڈیال مندر Jandial Temple

 جنڈیال مندر







جنڈیال مندر خانپور روڈ ٹیکسلا
بّرصغیر پاک وہند میں جنڈیال مندر ایک منفرد اہمیت کی حامِل عمارت تصور کی جاتی ہے اِس کا تعمیراتی خاکہ یونان میں واقع حکمت و دانائی کی دیوی ایتھینا کے مشہور پارتھین مندر سے ملتا جُلتا ہے اس کا رُخ شمال کی سمت اُس قدیم شاہراہ کی جانب ہے جو دریائے سندھ سے ہوتی ہوئی گندھارا کے دور دراز علاقوں سے جاکر ملتی تھی۔ 326 قبلِ مسیح میں مشہور فاتح سکندرِ اعظم بھی اس راستے سے ٹیکسلا آیا اور اس کے ساتھ آنے والے موّرخوں نے مقامی لوگوں کی جن رسومات کا مشاہدہ کیا اس میں انہوں نے انسانی نعشوں کو جلانے یا دفن کرنے کی بجائے گدِھوں کی خوراک بننے کا تذکرہ کیا تھا۔



جانڈیال کا قدیم مندر ٹیکسلا میوزیم سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اسے مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ہے یونانی طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ مندر تقریباً 158فٹ لمبا اور 81فٹ چوڑا ہے ۔سامنے کی جانب خاکی رنگ کے ریتلے پتھروں کے بنے ہوئے دو گول ستون ہیں جو چورس کرسی پہ بناۓ گئے ہیں ستون خوبصورتی سے تراشے گۓ ہیں جب کہ ستونوں کی کرسی گولو ں سے اور بھی نمایا ں کیا گیا ہے۔پتھروں پر کی جانے والی کند ہ کاری یونانی فن کا اعلیٰ نمونہ ہے ان کے متوازی دو ستون اور بھی ہیں جن پر چھت کا بوجھ سہارنے کیلئے شہتیر اور کڑیاں جوڑ کر رکھی گئی تھیں جنوبی برآمد ے سے داخل ہوں تو سامنے عبادت گاہ ہے جب کہ اسی کمرے کی دونوں جانب بڑی بڑی کھڑکیوں والی ہوا دار راہداری ہے اس سے گُذر کر پچھلی جانب جائیں تو وہاں ایک اور پورچ ہے۔بڑے دروازے سے ڈیوڑھی میں داخل ہوں تو چوڑی سیڑھیاں اوپر والی منزل پر لے جاتی ہیں۔ایتھنز کے بڑے مندر میں عبادت گاہ اور پچھلے درمیانی حصّہ میں کنواری دیوی ایتھینا کا معبد تھا جب کہ جنڈیال مندر میں اس کی جگہ سطح زمین سے لے کر اوپر تک پتھروں سے چنا ہوا پکا چبوترا ہے جس کی بنیاد فرش سے 20 فٹ نیچے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتنی گہری بنیاد ایک ایسے مینار کےلئے ہی کھودی گئی تھی جسکی بُلندی مندر کی چھت سے خاصی اونچی ہو گی چھت پر جانے کے لئے سڑھیاں اب بھی سلامت ہیں گھومتی ہوئی اوپر تک جاتی تھیں ان تمام شواہد کی روشنی میں اخز کیا گیا ہے کہ یہ زرتشتیوں کا خاموش مینار تھا جس پر کبھی مقدس آگ کا الاؤ روشن کیا جاتا تھا کُھدائی کے دوران سیڑھیوں پر سے مٹی کے گارے میں چنی ہوئی چند جلی ہوئی اینٹیں بھی ملی ہیں جو شاید اس مینار کی تباہی کے وقت اوپر سے گری تھیں۔





آیونی طرزِ تعمیر سے پتا چلتا ہے کہ اس مندر کو دوسری صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یونانیوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی باقیات میں بدھ مت، جین مت یا ہندو مت کے متعلق کوئی نشان نہیں ملا البتہ جنڈیال مندر کے بیچوں بیچ خاموش مینار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے بنانے والوں کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا۔




جب مشہور کرشماتی شخصیت کا حامل اپالونیسؔ والئی ٹیانا 44ء میں ٹیکسلا آیا تو اس نے اپنے شاگرد ڈیمسؔ کے ہمراہ اس مندر میں قیام کیا تھا۔اس وقت یہاں پارتھی حکمران گونڈو فارسؔ کی حکومت تھی اپالونیس ؔنے جنڈیال مندر میں کانسی کے چوکھٹوں میں آویزاں کئی تصاویر کا ذکر کیا ہے جس میں سکندرِاعظم ؔکی جہلم کے راجہ پورسؔ کے ساتھ لڑائی اور ملاقات کے کئی مناظر بھی تھے ان اعلیٰ نمونوں کی تصویروں میں پیتل چاندی اور سونے کے بنے ہوئے ہاتھی،گھوڑے، سپاہی اور کئی اقسام کا جنگی سازوسامان دکھایا گیا تھا۔ اس سے واضع طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس دور میں قدیم تاریخ کو تصاویر کی مدد سے ٹیکسلا کے جنڈیال مندر میں محفوظ کرلیا جاتا تھا۔





ہخامنشی سلسلے کے پہلے حکمران سائرس اعظم (558 - 529ق م) نے مشرقی جانب سے اپنی سرحدوں کو بڑھانا شروع کیا تو باختر (بلخ) کپسیا (کابل) اور گندھارا جس کا صدر مقام ٹیکسلا تھا کو اپنے تصّرف میں لے لیا۔ مشہور تاریخ دان ہیرو ڈوٹس کے بقول گندھارا ایرانی سلطنت کا بیسواں صوبہ تھا اور دولت کے لحاظ سے سب سے امیر ترین شمار ہوتا تھا

Post a Comment

0 Comments