گوجرانوالا

گوجرانوالا

گوجرانوالا
پہلوانوں کا کھانوں کا دل والوں کا شہر
امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق گوجرانوالا کو گوجروں نے آباد کیا جو کشمیر کے پہاڑوں پر آباد تھے اور بعد میں ایران کے شیرازی قبیلے نے اس شہر کا نام خان پور سانسی رکھا تاہم بعد میں اس کا پرانا نام بحال ہو کر گوجرانوالہ ہو گیا۔ یہ قصبہ خان پور ساہنسی بھی کہلاتا رہا۔ پانچ سال تک جاری رہنے رہنے والی لڑاٸی جو گجروں اور خان خان ساہنسی کے درمیان جاری رہی جس میں بل آخر خان ساہنسی کو شکست فاش ہوٸی










ایک روایت کے مطابق چھچھرانوالی(چھچھریالی موجودہ فریدٹاؤن) کے نواح میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں خان ساہنسی کو شکست ہوئی اور وہ خان پور کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ گوجرں نے خان پور پر قبضہ کر لیا اس شہر کا نام گوجرانوالہ رکھ دیا۔ گوجروں نے ساہنسیوں کی زمینداریوں کو بھی قائم رہنے دیا۔ گوجر راج میں اگرچہ ساہنسی کافی تعداد میں آباد تھے مگر پھر کبھی ان کے گوجروں سے تصادم کی نوبت نہ آئی۔ مغل دورِ حکومت میں گوجرانوالہ ایک گوجر ریاست کی حیثیت سے مغل سلطنت میں شامل رہا مغل سلطنت کمزور ہوئی اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دادا چڑت سنگھ نے علاقے پہ ڈاکوٶں اور اورلٹیروں کی مدد سے قبضہ کر کرلیا اور اپنی حکومت حکومت قاٸم کی جس کا سلسلہ رنجیت سنگھ تک قاٸم رہا










سکھوں نے جہاں بہت سے قصبات اور دیہات کے نام تبدیل کر دیے تھے۔ ممکن ہے انہیں اس قصبہ کے نام کی تبدیلی کا خیال بھی آیا ہو مگر گوجروں کا کاآباد کردہ شہر گوجرنوالہ کا نام تاریخی حقیقت بن کر جگمگاتا رہا۔ سید نگر اس دور میں گوجرانوالہ کا امیر ترین قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں اسلحہ سازی کی صنعت زوروں پر تھی۔ سید نگر شمشیر سازی اور بندوقیں تیار کرنے کا اہم مرکز تھا۔ اس کے باشندے بہت امیر تھے۔ سید نگر میں مسلمانوں کی پختہ حویلیاں اور مساجد تھیں۔ سکھوں نے سید نگر پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا۔ سید نگر کے باشندے مہاں سنگھ کے حکم سے اپنا آبائی قصبہ چھوڑ کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں انہوں نے ایک الگ محلہ آباد کیا جس کا نام انہوں نے سید نگری رکھا۔











چڑت سنگھ کی موت پر اس کی رانی ویساں نے اپنے نوعمر بیٹے مہاں سنگھ کی طرف سے ریاست پر خود قابض ہو کر حکومت خود سنبھال لی۔ مہاں سنگھ جوان ہوا تو اس نے اپنی ماں کو قتل کر کے حکومت خود سنبھال لی











مہاں سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا جانشین مقرر ہوا۔ رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ کو دار الحکومت قرار دیتے ہوئے سکھ سلطنت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شروع کا کچھ عرصہ اس نے مہاراجا کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں ہی گزارا اور پھرلاہور کو اپنا دار السلطنت قرار دیتے ہوئے وہاں منتقل ہو گیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ میں اپنے قیام کے دوران اس شہر کو خوبصورت بنانے کے کئی احکام جاری کیے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے اس جگہ جس کو کچی کہتے ہیں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ اس قلعہ کی ڈیوڑھی اس جگہ تھی جہاں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا صدر دروازہ ہے۔ اس قلعہ کی بنیادوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر کچی کے علاقہ کی کھدائی کی جائے تو بہت سے تاریخی نوادرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اور بہت سی تاریخی معلومات منظر عام پر آسکتی ہیں۔ رنجیت سنگھ نے ایک بارہ دری بھی بنوائی۔جو اب تک موجود ہے۔











اس کے بعد انگریز دور حکومت میں میںاس شہر میں میںکافی تعمیرو ترقی ہوٸی انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھا۔ انہوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے۔ کرنل کلارک نے حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا دیا۔ اور اس جگہ ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھا۔ یہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔ مہاں سنگھ کی حویلی ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ اس میں سکھوں کا شاہی خاندان آباد تھا اور اس حویلی کے قریب ہی سبزی منڈی کی طرف ایک قلعہ نما باغ تھا جسے حضوری باغ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ کرنل کلارک نے اس حویلی کو مسمار کرا دیا اور اس جگہ مربع بازار بنوا دیا۔ گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں۔ اس نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ‘ لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے۔ ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس کے محض آثار ہی باقی ہیں۔ گوجرانوالہ میں افغان دورِ اقتدار کی یادگار ایک مسجد بھی ہے۔ اسے شیر شاہ سوری کی مسجد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے روہتاس کی طرف جاتے ہوئے جب گوجرانوالہ میں قیام کیا تو اپنی قیام گاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد افغان طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے اور کراؤں فونڈری کے عقب میں واقع ہے۔











جغرافیہ ضلع گوجرانوالہ مرتبہ ڈائریکٹر تعلیمات پنجاب (1904) گوجرانوالہ میں 26785 افراد رہتے ہیں۔ شہر کسی قدر بلندی پر بنا ہوا تھا۔ اس کے گرد ایک دیوار تھی جس میں 11 دروازے تھے











موجودہ شہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے موجودہ شہری آبادی 60 لاکھ سے زاٸد ہے کراچی لاہور فیصل آباد کے بعد آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا شہر ہے۔گوجرانوالا ڈویزن بھی ہے گوجرانوالہ ڈویژن پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔ 2000 کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ شہر اس کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر تھا۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 7،522،352 اور یہ 17،206 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط تھا۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس ڈویزن کی آبادی 11،431،058 تقریبا چار ملین بڑھ گئی۔2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اس کے آٹھ ڈویژنوں کو بحال کر دیا-2017 کی مردم شماری کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے اوپر ہے۔ زرعی او صعنتی شہر جس کا Gdp میں حصہ 5% سے اوپر ہے۔











گوجرانوالا کی چار تحصیلیں ہیں۔ گوجرانوالا۔کامونکی۔نوشہرہ ورکاں۔وزیر آباد۔
سیالکوٹ ۔ناروال۔منڈی بہاولدین۔شیخوپورہ اور گجرات کے ساتھ اس پررونق شہر کی سرحدیں ملتی ہیں۔
کٸ ایک مشہور شخصیات کا تعلق اس شہر سے ہے موجودہ دور کی میں مشہور مزہبی اور روحانی شخصیت ثاقب رضا مصطفاٸی اور ادکار سہیل احمد ۔اور کرکٹر حسن علی کا تعلق بھی اسی شہر سے۔









آج گوجرانوالا بہت بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ دلوں کا شہر بھی ہے یہاں پہلوان اور کھانے اس شہر کی پہچان ہیں ہر روایتی کھانہ اور لزت کسی اور شہر میں نہیں ملے گی اپنی پہچان آپ یہ شہر پوری رونق و رعناٸیوں کے ساتھ الگ ہی نظاروں کا حامل ہے 

Post a Comment

0 Comments