پنجابی زبان

پنجابی زبان

پنجابی زبان
پنجابی رسم الخط اور حرف تہجی۔
پنجابی زبان ہند آریائی زبان ہے اور تقریبا 20 کروڑ لوگ بولتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان میں مغربی پنجاب کے 12 کروڑ اور بھارت میں مشرقی پنجاب ' ہریانہ ' ہماچل پردیش کے 8 کروڑ لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ جبکہ برطانیہ ' امریکہ ' کینیڈا ' متحدہ عرب امارات ' سعودی عرب اور آسٹریلیا میں بھی پنجابی بولنے والوں کی نمایاں تعداد موجود ہے۔



پنجابی قوم دنیا کی نویں بڑی اور جنوبی ایشیاء کی تیسری سب سے بڑی قوم ہے۔ پنجابی مسلمان امت مسلمہ میں تیسری سب سے بڑی لسانی آبادی ہیں اور پاکستان کی %60 آبادی پنجابی ہے۔ جبکہ پاکستان کی %80 آبادی پنجابی زبان بولنا جانتی ھے اور %90 آبادی پنجابی زبان سمجھتی ہے۔
پنجابی زبان دنیا کی ان چند نایاب ترین زبانوں میں سے ایک ہے کہ جو لکھی تو دو مختلف رسم الخطوط میں جاتی ہے ـ مگر پڑھی ایک ہی جاتی ہے ـ
یعنی پنجابی زبان کو لکھنے کے دو بنیادی رسم الخط ہیں ـ
۱- شاہ مکھی پنجابی
۲- گور مکھی پنجابی
۱- شاہ مکھی پنجابی: -
شاہ مکھی۔ کا لفظی مطلب ہے کہ "شاہ کے منہ سے نکلی ہوئی " ـ اور اسے شاہ مکھی اس لیے کہا گیا کیونکہ اس رسم الخط کو سب سے پہلے مسلم فقراء، درویش شعراء، اولیاء اور دیگر بزرگانِ دین نے متعارف کروایا اور اس میں خط و کتابت کرنا شروع کیا ـ اور یہ رسم الخط وہ ہے کہ جو اردو زبان سے اخذ شدہ ہے ـ جو کہ ہم اپنے مغربی پنجاب پاکستان میں استعمال کرتے ہیں ـ اور یہ ہو بہو اردو حروف تہجی کی بنیاد پر قائم ہے ـ
اور تاریخ میں پنجابی زبان کے جتنے بھی مسلم شعراء گزرے ہیں ان سب کا کلام شاہ مکھی پنجابی میں ہی لکھا ہوا ہے ـ
۲- گورمکھی پنجابی: -
گورمکھی کا لفظی مطلب ہے کہ "گرو کے منہ سے نکلی ہوئی " ـ
اور اسے گورمکھی اس لیے کہا گیا کہ کیونکہ اسے سب سے پہلے سکھ گروؤں، سکھ بزرگ شعراء، فقراء اور سادہوؤں نے استعمال کیا ـ اور اس کو عام کیا ـ اور یہ رسم الخط وہ ہے کہ جو مشرقی پنجاب انڈیا میں سکھ حضرات استعمال کرتے ہیں ـ اور یہ ہندی زبان سے اخذ شدہ ہے ـ مگر اس کا رسم الخط اور حروف تہجی ہندی سے ذرا مختلف ہے ـ اور شاہ مکھی پنجابی اور گورمکھی پنجابی میں بس اس بات کا تضاد ضرور ہے کہ ہم پاکستانی پنجابیوں کے لیے شاہ مکھی پنجابی صرف ہماری مادری اور علاقائی زبان ہے جبکہ سکھوں کے لیے یہ مادری کے ساتھ ساتھ مذہبی زبان بھی ہے ـ
شاہ مکھی میں : " پنجابی "
گورمکھی میں : " ਪੰਜਾਬੀ "
اور یہ دونوں الفاظ دیکھنے میں آپ کو مختلف لگ رہے ہیں مگر پڑھنے میں بالکل ایک ہی ہیں ـ یعنی یہ لفظ "پنجابی " ہی لکھا ہوا ہے ـ جس کے شاہ مکھی ہِجے یہ بنتے ہیں ـ :
پنجابی: پ ن ج ا ب ی
جبکہ اس کے گورمکھی ہِجے یہ بنتے ہیں:
ਪ ੰ ਜ ਾ ਬ ੀ
یعنی
پ = ਪ
ن = ੰ
ج = ਜ
ا = ਾ
ب = ਬ
ی = ੀ



پنجابی زبان قرون وسطی کے شمالی ہند کی شورسینی زبان سے نکلی اور 11 ویں صدی کے دوران ایک الگ زبان بن گئی۔ شورسینی ایک پراکرت زبان ہے۔ پنجابی زبان کی پرورش صوفی بزرگوں بابا فرید ' بابا نانک ' شاہ حسین ' سلطان باھو ' بلھے شاہ ' وارث شاہ ' خواجہ غلام فرید ' میاں محمد بخش نے کی۔
پنجابی زبان کا پس منظر روحانی ہونے کی وجہ سے پنجابی زبان میں علم ' حکمت اور دانش کے خزانے ہیں۔ اس لیے پنجابی زبان میں اخلاقی کردار کو بہتر کرنے اور روحانی نشو نما کی صلاحیت ہے۔ جبکہ پنجابی زبان پنجابی ثقافت ' تہذیب اور تاریخ کے ورثے کے لحاظ سے امیر زبان ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دونوں میں پنجابی کے لیے معیاری تحریری لہجہ ماجھی ہے۔ ماجھی کا نام پنجاب کے علاقے ماجھا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ پنجابی زبان کا سب سے قدیم لہجہ جھنگوچی ہے۔جھنگوچی لہجہ پنجابی کا ایک سب سے پرانا اور انفرادی مزاج رکھنے والا لہجہ ہے اور اسے اصل پنجابی لہجہ اور ٹھیٹھ پنجابی لہجہ بھی کہا جاتا ہے۔




جھنگوچی لفظ جھنگ سے نکلا ہے۔ اس لہجے کو اُبھیچری لہجہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کے جھنگوچی لہجے کا علاقہ پنجابی زبان کے ماجھی لہجے کے علاقے کے جنوب اور جنوب مغرب کی طرف ہے۔ جوکہ پاکستانی پنجاب کے بار کے علاقے میں بولا جاتا ہے۔ ساندل بار ' کرانا بار ' نیلی بار ' گنجی بار "پنجاب کے بار کے علاقے" ہیں۔
پنجابی میں جنگل کو بار کہتے ہیں۔ یہ علاقے پنجابی ثقافتی ورثے اور پنجابی ادبی ورثے کے علاقے ہیں۔ ہیر رانجھا اور مرزا صاحبہ کے مشہور رزمیہ رومانوی کہانیوں کی تخلیق اسی علاقے سے وابسطہ ہے۔ دوہڑہ ' ماہیا اور ڈھولا جھنگوچی کی مشہور اصناف سخن ہیں۔
مغربی پنجاب میں پنجابی زبان کو عربی حروف تہجی اور فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے جسے شاہ مکھی رسم الخط کہا جاتا ھے۔ بابا فرید الدین گنج شکر (پیدائش 1173 وفات 1266) کو پنجابی زبان کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔ پنجاب میں اسلام کی تعلیمات کے فروغ پانے سے پہلے پنجابی کو "دیوناگری رسم الخط" میں لکھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے جب پنجابی کو "شاہ مکھی رسم الخط" میں لکھنا شروع کیا تو ھندو پنجابی "دیوناگری رسم الخط" میں ہی لکھتے رہے اور اب بھی لکھتے ہیں۔ جبکہ مشرقی پنجاب میں پنجابی زبان کو گرومکھی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔
گرومکھی رسم الخط حروف تہجی سے تیار ہوا ہے۔ گرومکھی رسم الخط کو بابا گرو نانک کی 1539ء میں وفات کے بعد گرو انگد دیو جی نے "گرو گرنتھ صاحب" لکھنے کے لیے ایجاد کیا۔ حروف پہلے سے موجود تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حروف کشمیر کی شاردا ' کانگڑا کی کری یا ٹھاکری اور مدہیہ پردیش کی ناگری کے میل سے اکٹھا ہوئے ہیں۔



گرو انگد دیو جی نے مذکورہ بالا رسم الخطوں سے 24 حروف تہجی لے کر اس میں تھوڑی سی تبدلی کرکے 35 حروف کا صوتی رسم الخط تیار کیا اور بابا گرو نانک کی تعلیمات کو لکھنا شروع کیا۔ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو جی نے اس رسم الخط میں آدہی گرنتھ کو اکٹھا کرکے اس کا نام "گرو مکھی" رکھ کر اس کو سکھوں کے دہرم کا خاص رسم الخط بنایا۔
قدیم گورمکھی رسم الخط کے الفاظ جدید پنجابی کی طرح ہیں۔ لیکن اس میں گرامر کا فرق ھے۔ کیونکہ یہ بولی جانے والی زبان کے بجائے ایک شاعرانہ زبان ہے۔ جبکہ جدید پنجابی حرف تہجی میں جدید دور کے اضافی حروف بھی موجود ہیں جو گرومکھی رسم الخط میں شامل نہیں ہیں اور نہ گورو گرنتھ صاحب کی تحریر میں نظر نہیں آتے ہیں۔
پنجابی ایک زبان ہے لیکن گرومکھی اور شاہ مکھی پنجابی زبان لکھنے کے لیے رسم الخط ہیں۔ چونکہ؛
1۔ سکھ گرو گرومکھی حرف تہجی استعمال کرتے ھیں اور گرومکھی رسم الخط میں لکھی ہوئی "گرو گرنتھ صاحب" کے گیت گاتے ہیں۔ اس لیے سکھ پنجابیوں کو "گرومکھی رسم الخط" سیکھنے میں آسانی رہتی ہے۔
2۔ شاہ مکھی رسم الخط عربی حروف تہجی پر مشتمل ہے اور فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔ عربی رسم الخط کا استعمال مسلم پنجابی عربی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن پاک پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے مسلمان پنجابیوں کو "شاہ مکھی رسم الخط" سیکھنے میں آسانی رہتی ہے۔
تمام پنجابی مختلف لہجوں میں پنجابی بولتے ہیں۔ لیکن پنجابی زبان لکھنے کے لیے گرومکھی اور شاہ مکھی کے رسم الخط استعمال کیے جاتے ہیں۔ چونکہ سکھ پنجابیوں کی گرومکھی سے مذھبی وابستگی ہے اور مسلمان پنجابیوں کا شاہ مکھی سے مذہبی وابستگی ​​ہے۔ اس لیے سکھ پنجابیوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ گرومکھی میں پنجابی لکھیں اور مسلمان پنجابیوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ شاہ مکھی میں پنجابی لکھیں۔
دونوں زبانوں کو قریب کرنے کے لیے، دونوں زبانوں کا تاریخی پسِ منظر جاننے کے لیے، دونوں کی ثقافت، تہذیب اور رسوم سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اب دونوں خطوط میں لکھے گئے مشہور قدیم لکھاریوں کے کلام کے تراجم دونوں رسم الخطوط میں کیے جا رہے ہیں ـ یعنی شاہ مکھی پنجابی کے کلام کو گورمکھی میں اور گورمکھی پنجابی کے کلام کو شاہ مکھی میں ترجمہ کیا جا رہا ہے ـ
جس سے دونوں ملکوں کے اہلِ زبان میں مختلف موضوعات کے حوالے سے کافی آگاہی آ رہی ہے ـ



سکھ پنجابی اور مسلم پنجابی کو پنجابی زبان کے رسم الخط پر تنازعہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت لوگ دو یا تین سے زیادہ زبانیں سیکھتے ہیں۔ لہذا ان پنجابیوں کے لیے پنجابی زبان کے دونوں رسم الخط سیکھنا مشکل نہیں ہے۔ جن کو پنجابی زبان کے دوسرے رسم الخط میں لکھی گئی تحریر کو سمجھنے میں دلچسپی ہو 

Post a Comment

0 Comments