ملتانی کاشی گری

ملتانی کاشی گری

ملتانی کاشی گری
ملتانی کاشی گری اور ظروف سازی، چمڑے کے دیدہ زیب کھسے، کمنگری، اونٹ کی کھال سے بنے لیمپ شیڈ، کڑہائی شدہ کرتے اور دوپٹے، ملتانی کھیس، ریشمی لنگیاں، مجسمے،
تیل دھنیاں، کاشی کی اینٹیں اور نیلی اجرک وغیرہ شامل ہیں۔






یہ فن افغانستان سے ہوتا ہوا برِصغیر وارد ہوا جہاں ملتان شہر اسکا گڑھ بنا اور ملتان سے یہ لاہور، دہلی اور آگرہ تک جا پہنچا۔
بہت پہلے فارسی کے ایک مشہور شعر میں ملتان کو گرد، گدا، گرما اور گورستان کا شہر گردانا گیا تھا۔ لیکن اُس ملتان اور آج کے ملتان میں بہت فرق ہے۔ آج کا ملتان پنجاب کا چوتھا بڑا شہر ہے جو دنیا بھر میں کئی حوالوں سے مشہور ہے جن میں ملتان کی سر زمین پر آرام فرما رہے اولیاء و صوفیاء ، ملتانی سوہن حلوہ، آم کے باغات وغیرہ




لیکن ملتان کی جس صنعت کا ذکر ہے وہ خالص ملتانی ہے اور یہیں سے پورے ملک کیا پوری پھیلی ہے، کاشی گری یا ظروف سازی (بلیو پاٹری) کی ۔۔




ملتان سمیت سراٸیکی خطے اور سندھ میں بھی عمارتوں اور برتنوں پر نیلے رنگ کی نقاشی کی روایت بھی قدیم عہد سے چلی آ رہی ہے، اس فن کیلئے نیلے رنگ کا ایک خاص روغن تیار کیا جاتا ہے۔ کاشی گری کے فن میں دوسرے رنگوں کا استعمال بہت ہی کم ہوا ہے اور غالباً کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔ کاشی گری اصل میں مٹی اور دھاتوں کے ایک خاص مرتب سے بنائے گئے برتنوں پر نیلگوں نقش و نگار بنائے جانے کو کہتے ہیں۔






نیلا رنگ ہی کیوں ؟؟ خطہ ملتان میں نیلے رنگ کے فروغ کے حوالہ سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ رنگ انتہائے نظر اور آفاقیت کی ایسی علامت ہے جس سے روح و چشم کو سکون ملتا ہے۔ ملتان اور سندھ کی تہذیب و تاریخ میں نیلے رنگ کی بہت زیادہ اہمیت ہے‘ اجرک جو سندھ اور ملتان کا تہذیبی پہناوا ہے‘ کی رنگائی بھی نیل سے ہی کی جاتی تھی‘ ملتان میں سر ڈھانپنے کی ایک مخصوص چادر کو ’’نیلا‘‘ کہا جاتا تھا‘ دریائے سندھ کا پرانا نام بھی ’’نیلاب‘‘ ہے۔ اس خطے میں پڑنے والی شدید گرمی نے بھی نیلے رنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ نیلا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ سو نیلا رنگ اب ملتان اور تمام جنوبی پنجاب کی پہچان بن چُکا ہے۔




آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فن ملتان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور شہرِ ملتان، فارس اور ترکی کے ساتھ ہمارے پرانے اور اٹوٹ رشتوں کی جیتی جاگتی مِثال ہے۔ ایک دور تھا جب (رنگوں کی خاص ترتیب اور بناوٹ کی وجہ سے) ملتانی ہنر مند کئی عرصے تک اس فن کو ایک راز کے طور پر نسل در نسل منتقل کرتے رہے، لیکن آج یہ ہر جگہ پھیل چُکا ہے ۔ ایران کی طرح ملتان کی بھی کئی معروف عمارتیں کاشی گری کا شاہکار ہیں جن میں بزرگانِ دین کی درگاہیں، مساجد، بہاؤ الدین یونیورسٹی کا شعبہ سرائیکی اور اُمراء کے بنگلے شامل ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان ،گجرات اور لاہور میں شاہدرہ لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔




1853 میں قلعہ کہنہ قاسم باغ کی کھدائی کے دوران سر الیگزینڈر کننگہم کو 900 میں بنائی گئیں ملتان کی روغنی ٹائلیں ملیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹائلیں محمد بن قاسم کی ملتان آمد کے بعد بنائی گئی مسجد میں استعمال کی گئی تھیں۔







آج ملتان سمیت سندھ پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ نیلا رنگ ٹائل اور پتھر کی صورت میں ہمیں ملتا ہے جن میں اُچ شریف کے مقبرے، نواب آف بہاولپور کا آبائی قبرستان، درگاہ سچل سرمست، مزار شاہ عبدالطیف بھٹائی، سندھ میں تالپوروں کے مقبرے، لاہور میوزیم، ہولی چرچ بنوں، دربار بابا فرید الدین پاکپتن، اور مختلف امراء کی حویلیاں اور بنگلے شامل ہیں۔ قطر کی مشہور لال اور نیلی مسجدوں میں بھی ملتانی کاشی کاری کی گئی ہے۔ جبکہ ملتان کی اس صنعت کو وزیر اعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، بیرونِ ملک پاکستان کے سفارت خانوں، پاکستان کی مشہور چہار و پنج ستارہ ہوٹلوں اور برٹش میوزیم لندن میں بھی نمائش کے لیئے رکھا گیا





پہیے کی ایجاد کے بعد فنِ ظروف سازی نے ایک نئی کروٹ لی اور تقریباً 3000 سال قبلِ مسیح میں سفال گروں نے اس پہیئے کو ایک نئی شکل میں ڈھال کر مٹی کو اس پر نچانے کی ابتدا کر دی۔ کمہار کے ہاتھوں نے اس پہیئے پر جادو دکھانا شروع کیا اور چھال یعنی ''پوٹرز وہیل'' دیکھتے ہی دیکھتے کمہار کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جبکہ پہیئے کی ایجاد سے پہلے یہ تمام کام انسانی ہاتھ سے کیئے جاتے تھے جو کافی وقت لیتے تھے۔





انسانی تاریخ میں صدیوں پہلے سے مٹی کو حُسن پرستی جمالیاتی ذوق اور کاری گری کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ مجسمہ سازی کا فن ہو، تعمیری شاہکار ہوں یا فنِ بت سازی، یہ مٹی کب سے مختلف اشکال میں انسانی ذوق کی تسکین کا باعث بنتی آ رہی ہے۔ موہنجودڑو، بابُل اور ہڑپہ کی قدیم تہزیبیں بھی مٹی کو برتن بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ اگر مٹی سے ظروف بنانے کے فن کو قدیم ترین فنون میں سے ایک کہا جائے تو کُچھ غلط نہ ہو گا۔






آج بھی ظروف سازی کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک اور ثقافت کا حصہ ہے لیکن ماضی میں چینی قوم اس ضمن میں سب سے پہلے منظرِ عام پر آئی۔ چینیوں نے پورسلین اور ظروف کے روغن دریافت کیئے اور اس سے برتن بنانے شروع کر دیئے لیکن ان کے برتن نیلے رنگ کے بغیر بہت پھیکے لگتے تھے۔ پھر ایرانی سلطنت میں ''کوبالٹ آکسائیڈ'' کی دریافت نے تہلکہ مچا دیا۔ اس کو مٹی کے برتنوں پر روغن کے طور پہ مَلا جاتا تھا جو بھٹی میں تپنے کے بعد خوبصورت اور چمکتے ہوئے نیلے رنگ میں بدل جاتا تھا۔




1301 میں ایران کےعبدل قاسم قاسانی نے برتنوں پر نقش نگاری اور رنگوں سے متعلق ایک کتاب لکھی۔ چینی قوم کسی بھی قیمت پر ایرانیوں سے رنگوں کا یہ فن سیکھنا چاہتی تھی۔ ایرانی حکمران شاہ عباس نے 300 چینی کاریگروں کو ایران بلوایا جہاں آ کر انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایران کی مٹی پورسلین بنانے کے لیئے بالکل کارآمد نہیں ہے۔ وہ مایوس تو ہوئے لیکن اپنے ایرانی ہم عصروں کے ساتھ مل کر انہوں نے ''نیلے رنگ کے برتن'' دریافت کر لیئے۔ اِن برتنوں کو ''بلو پاٹری'' نام انگریزوں کا دیا ہوا تھا جبکہ ایران میں یہ ''سنگینے'' کے نام سے جانے جاتے تھے جس کا مطلب ''پتھر سے بنے ہوئے'' ،ہے۔




فنِ ظروف سازی پر ایرانی ، چینی اور منگول اقوام کا اثر بہت زیادہ ہے اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کاشی کے فن کی ابتدا مغربی چین کے شہر کاشغر سے ہوئی تھی۔ جو بعد میں ایرانیوں نے اپنایا اور آج بھی آپ کو ایران میں جگہ جگہ مختلف مزارات اور عوامی جگہوں پر نیلا ٹائل ورک نظر آئے گا 

Post a Comment

0 Comments