اٹک Attock

اٹک Attock

اٹک
عام الفاظ میں اٹک جانا کا مطلب پھنس جانا لیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس مقام پر دریا کا بہاو رکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔تو یہ غلط ہو گا کیونکہ اس مقام پر دریا کا پاٹ شمال کی نسبت زیادہ ہے۔ اور اتنا بڑا ہے کہ ابا سین کو بھی اسی مقام پر گلے لگاتا ہے












اگر اٹک کا لفظ آ-ٹک بولا جائے تو اس کا مطلب ہے سکون ، ٹہراو یا رک جانا لیا جا سکتا ہے۔ بظاہر اس مقام پر دریا پر سکون ہو جاتا ہے اور جنوب میں گھوڑا ترپ کے مقام پر دریا کے پاٹ میں تنگی آ جانے کی وجہ سے پانی کی رفتار ایک دفعہ پھر تیز ہو جاتی ہے۔












اٹک کے نام کی دوسری وجہ تسمیہ سنٹرل ایشاء سے آنے والے قافلوں سے ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ایک لمبے سفر کے بعد یہان آکر آٹک جاتے یا یہاں آ کر کشتی کے ملنے تک ۔ٹک۔ جاتے۔ معنوی طور پر اٹک سے ملتا جلتا اردو کا ایک اور لفظ پھا-ٹک ہے۔ (روکنے والی گرہ یا پھندہ) پھاٹک سے کوئی ممانعت منسلک ہوتی ہیں وقتی یا دائمی لیکن کام رکاوٹ یا پھانسنے کا ہی لیا جاتا ہے۔










ایک اور روایت جو تاریخی کتاب پٹہ خزانہ میں مصنف محمد ہوتک نے لکھی ہے کہ آریہ سماج کی آمد پر انھوں نے دریا پار کرنے پر پابندی لگا دی تھی جس وجہ سے نام اٹک پڑ گا۔










سر اولف کیروو نے اپنی کتاب ” دی پٹھانز”میں ذکر کیا ہے کہ اکبر بادشاہ کے رتن ہندو راجہ مہیش داس المعروف بیربل نےسال 1581 عیسوی میں یہاں قلعہ تعمیر کیا۔ اور یہ کہ اکبر بادشاہ کی اٹک قلعہ کی بنیادوں کے
معائنہ کیلئے آمد کے وقت قاسم خان نے یہاں کشتیوں کا پل تعمیر کرایا۔










ضلع اٹک محل وقوع 33.894 درجے شمال، 72.241 درجے مشرق میں ہے اٹک صوبہ پنجاب کا ایک شہر اور ضلع اٹک کا صدر مقام ہے۔ ضلع اٹک کی پانچ تحصیلیں ہیں اور ایک سب تحصیل ہے۔ مکمل نام اٹک شہر لکھتے اور بولتے ہیں کیونکہ ایک قصبہ اٹک خورد کے نام سے دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ قلعہ اٹک بنارس بھی وہیں پر ہے۔ موجودہ اٹک شہر کا نام پہلے کیمبل پور تھا جسے برطانوی حکومت نے بطور چھاؤنی آباد کیا۔ بعد میں یہ نام بدل کر دوبارہ اٹک شہر کر دیا گیا۔ضلع اٹک میں مندرجہ ذیل تحصیلیں ہیں۔ تحصیل اٹک تحصیل حسن ابدال تحصیل فتح جنگ تحصیل جنڈ-تحصیل حضروضلع اٹک کے اہم علاقوں میں حسن ابدال،وادی چھچھ اورفتح جنگ تحصیل پنڈی گھیپ اٹک ایک تاریخی مقام ہے۔ بادشاہ اکبر نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا جوقلعہ اٹک بنارس کے نام سے مشہور ہے اب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ سکھ مذہب کی عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال میں واقع ہے۔










اٹک کی آبادی کی بات کی جاۓ تو 1998 کی مردم شماری میں اٹک کی آبادی 12 لاکھ 78 ہزار سے زیادہ تھی
2017 کی مردم شماری کے مطابق 18 لاکھ 83 ہزار 556 افراد پہ مشتمل تھی اس کا رقبہ 2648 مربع میل ہے سطع سمندر سے بلندی 2758 فٹ ہے
“تاریخی، جغرافیائی اور تفریحی مقام” ۔دریائے سندھ (جسکو پشتو زبان میں ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہا جاتا ہے اور دریائے کابل کے حسین ملاپ کے سنگم پر واقع ہے اور دونوں دریا ساتھ ساتھ کافی دور تلک چلتے ہیں اور انکا پانی آپس میں ضم نہیں ہوتا اور دونوں دریاؤں کو ان کے الگ الگ پانی کے رنگ کی وجہ سے دور تک دیکھا جا سکتا ہے۔










۔یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں 326 ق م میں سکندر یونانی نے اسی مقام سے دریائے سندھ کو عبور کیا اور ہندوستان کے بیشتر علاقے فتح کئے۔
اسی مقام پر ہندوؤں اور مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی راجہ جے پال کے بیٹے راجہ انند پال اور محمود غزنوی کے درمیان 1008ء کے آخری دنوں میں لڑی گئی ،جس میں انند پال کو شکست ہوئی۔










اسی مقام پر جلال الدین خوارزم شاہ نے منگولوں (چنگیز خان)کے مابین لڑاٸی Battle of Indus جو کہ 24 نومبر 1221ء کو لڑی گئی اورخوارزم شاہ منگولوں کےنرغے میں آنے کے بعد گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی اور بحفاظت دوسرے کنارے پہنچ گیا،جبکہ منگول اٹک کراس نہ کر سکے ۔










اسی مقام پر امیر تیمور ثمرقند سے چل کر 30 ستمبر 1398ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔
بادشاہ اکبر نے سولہویں صدی عیسوی میں اس مقام پر ایک قلعہ تعمیر کروایا جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے۔
اسی مقام پر 28 اپریل 1758ء کو احمد شاہ درانی اور مرہٹوں کے مابین لڑائی لڑی گئی۔
یہ مقام صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو آپس میں ملاتا ہے،دور قدیم سے ہی اسے ایک بین الاقوامی شاہراہ کی حیثیت حاصل تھی اور ہے۔
اس مقام کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر انگریزوں نے 1884ء میں ایک نہایت خوبصورت ریلوے سٹیشن قائم کیا، جوآج بھی پاکستان کاسب سےخوبصورت ریلوےسٹیشن ہے۔










ریلوےسٹیشن کےبالکل ساتھ ایک خوبصورت ڈبل ڈیکر (اوپر ٹرین کے پٹڑی اور نچلے حصے میں بسوں وغیرہ کی سڑک)پل برطانیہ کی کمپنی white westing house نے تعمیر کیا ۔







حکومت پاکستان نے گولڑہ ریلوے سٹیشن اسلام آباد سے اٹک خورد ریلوے سٹیشن تک سفاری ٹرین شروع کر رکھی ہےجوہر اتوار کو چلائی جاتی ہے۔
اسی مقام پر ایک خوبصورت جزیرہ (بھری آئیلینڈ ) بھی ہے۔
بھری آئی لینڈ کےساتھ خوبصورت جھیل ہے جہاں کیمپنگ اور فشنگ کی جا سکتی ہے۔
بھری آئی لینڈ کی ریت پر جیپ سفاری کی جاتی ہے۔
اٹک قلعہ کے باہر بہرام کی بارہ دری۔
بیگم کی سرائے۔
مقبرہ اٹک وغیرہ تاریخی عمارات ہیں۔
اٹک قلعہ کے ساتھ سکھوں کا ایک گردوارہ بھی ہے۔
انگریز مصنف A. J. Toynbee نے اسی مقام کے بارے میں ایک مضمون “The Indus in fetters”
لکھا اور یہی مضمون پشاور یونیورسٹی کی فورتھ ائیر انگلش میں پڑھایا جا رہا۔








اٹک کی اپنی تاریخ اور اپنی ثقافتی رسمیں ہیں یہاں کی مشہور ڈش،کٹوا، اور مکھڈ سے شروع ہونے والا، مکھڈی حلوہ، یہاں کے ثقافتی کھیلوں میں نیزہ بازی پوری دنیا میں علیحدہ ہی پہچان رکھتی ہے اور نیزہ بازی اور اپنی پروقار شخصیت کے مالک ملک عطا محمد خان پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتے ہیں مختصر یہ کے یہ علاقہ اپنی تاریخ اور ثقافت میں کسی کا ثانی نہیں 

Post a Comment

0 Comments